کرچکے ، تمہیں جو موقع میسر ہے اسے بسا غنیمت سمجھو ، اور چن لو ، عمل کے جتنے گوہر چننے ہوں ، اب مسجد کی وہ جگہ خالی نہ ہو ، جہاں آپ کے والد کھڑے ہوا کرتے تھے ، سلسلہ قائم رہے ، یہ بہت ضروری بات کہہ رہا ہوں ، اسے سرسری نہ سمجھئے گا ، بہت زیادہ اہتمام کیجئے ، آپ کے اعمالِ صالحہ کا ثواب خود بخود والد مرحوم کو پہونچتا رہے گا ۔
ایک بات اور یاد آئی ! کہے دیتا ہوں ، ہمارے یہاں باپ کے مرنے کے بعدتقسیمِ وراثت کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا ، یہ بات شریعت کے نزدیک بہت قبیح ہے ، جتنے وارثین ہوں ، فرائض نکلواکر سب کا حصہ متعین کرکے دے دینا چاہئے ، تاکہ ملکیت ہر ایک کی علیٰحدہ ہوجائے ، پھر جس کا جی چاہے کاروبار ومعاملات میں شریک رہے اور جس کا جی چاہے الگ ہوجائے ، اور یاد رہے کہ وراثت میں عورتوں اور لڑکیوں کا حصہ بھی متعین ہے ، جو لڑکیوں کے معاف کرنے سے معاف نہیں ہوتا ، ان کا حصہ ضرور الگ کرکے دے دینا چاہئے ، ورنہ غصب کا گناہ ہمیشہ سر پر رہے گا ، لڑکیاں عام طور پر اپنا حصہ لینے سے گھبراتی ہیں ، ان کو بتادینا چاہئے کہ شریعت کا دیا ہوا حصہ ہے ، رشتہ داری اور قرابت داری کا لحاظ اس کے بعد بھی فرض رہے گا ، لڑکیوں کا حصہ نہ دینے کا رواج بہت قبیح ہے ،ا س کو ختم کرنا چاہئے ، اگر آپ لوگ اس کا اہتمام کریں تو بہت بڑا ثواب ہوگا ، یہ کام فوراً ہوجانا چاہئے ، بعد میں جب وراثت کے مال میں بہت کچھ کمی یا زیادتی ہوجاتی ہے تو مشکل مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں ، بس صاحب اسی پر ختم کرتا ہوں ، اﷲ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۲۶؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۶ھ
٭٭٭٭٭