ہوں ، اور بار بار دیکھتا ہوں ، ان کی چشم وابرو کے اشاروں کو دیکھتا ہوں ، سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں ، تعمیل ارشاد کا شوق رکھتا ہوں ، بس قصورِ ہمت اور ضعف عزم کی وجہ سے گرگر جاتا ہوں ۔ کاہل ہوں اور کاہلی ہی کے راستے سے پہونچنا چاہتا ہوں ، اﷲ جانے کیا انجام ہو ۔ آپ ان سے بصد ادب واحترام سلام عرض کیجئے ، اور کہنے والے جو چاہے کہتے رہیں ، انھیں کہنے دیجئے ، آپ اس دربار میں دعاء کی درخواست پیش کردیجئے کہ ایک غلام جو ظاہر کے اعتبار سے بھی ، اور باطن کے اعتبار سے بھی ، ہر لحاظ سے نجس ہے ، بلکہ نجاست ہے ، طہارت کا شوق رکھتا ہے ، ان کی رحمت متوجہ ہو ، اور رحمن ورحیم کی رحمت ان کے واسطے سے چشم التفات اِدھر کردے تو چشم زدن میں پاک ہوسکتا ہے ۔ ؎
آنانکہ خاک را بنظر کیمیا کنند آیا بود کہ گوشۂ چشمے بما کنند
(وہ لوگ جو ایک ہی نگاہ سے مٹی کو سونا بنادیتے ہیں ، کیا ایسا ہوسکتاہے کہ وہ اپنا گوشۂ چشم ہماری جانب کردیتے)
ان کی نظر سے نہ جانے مٹی کے کتنے تودے سونا اور ہیرا بن چکے ہیں ، اور بنتے ہی جارہے ہیں ، اگر اس دور ، بہت دور پڑے ہوئے غلام پر ان کی نظر ! نہیں گوشۂ چشم پڑجائے تو کیا یہ مٹی کچھ نہ بنے گی ۔ ہائے ،مٹی کے اندر کیمیا بننے کی استعداد ہوتی ہے ، تو وہ سونا بن جاتی ہے ، اﷲ جانے میری مٹی میں کوئی استعداد ہے بھی یا نہیں ؟
خیر آپ ان خیالاتِ پریشاں سے قطع نظر کیجئے ، اور عرضی تو گزار ہی دیجئے ۔ آگے ان کی دعا ہے ، پروردگار کا تصرف ہے ، اور اس غلام کی طرف سے انتظار ہے ۔
ہاں حاجی بابو کہہ رہے تھے کہ ’’ حق چار یار ‘‘ یہاں بھیجنے کا انتظام کریں ، انتظار رہتا ہے ، اور ملتا نہیں ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۲۸؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۲۲ھ یکشنبہ
٭٭٭٭٭