طرح جلوہ فگن ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ان کی کون سی شان دوسری شان پر غالب ہے۔
دوستوں کی اس فہرست کے ساتھ بعض اکابر اور ہم عصروں کے نام مکاتیب بھی مجموعہ میں شامل ہیں جو خاص حالات اور واقعات کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں ، اور انتہائی متنوع اور مفید مضامین پر مشتمل ہیں ۔ حدیث دوستاں کے عنوان سے بلااختیار ذہن فارسی کے اس مشہور شعر کی طرف منتقل ہوجاتا ہے ؎
خوشتر آں باشد کہ سرِ دلبراں گفتہ آید در حدیث دیگراں
فرق یہ ہے کہ یہاں معاملہ حدیث دیگراں کے بجائے حدیث دوستاں کا ہے۔ حضرت مولانا اپنے مخصوص قلندرانہ مزاج کی وجہ سے شاید خود ان خطوط کی اشاعت گوارانہ فرماتے لیکن عزیز گرامی قدر حاجی بابو کی علم دوستی اور مولانا شناسی نے یہ مرحلہ بھی طے کرادیا۔ حاجی بابو کا ہی بار بار اصرار ہواکہ تو بھی اس کتاب کے لئے چند سطریں تحریر کردے ، بندہ اپنی کوتاہ قلمی کا عُذر کرتا رہا مگر معذرت قبول نہ ہوئی اور کمزور کو دبنا ہی پڑا ۔ یہ منتشر سطریں صرف نقاب کشائی کے لئے ہیں ،اصل کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ ؎ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے
پڑھئے اور لطف حاصل کیجئے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب شائع شدہ مجموعہ ہائے مکاتیب میں ایک بہترین اضافہ ثابت ہوگی ، قدر کے ہاتھوں لی جائے گی اور محبت کی نظروں سے پڑھی جائے گی، کہ اس کا اصل جوہر محبت ہی ہے۔ والسلام
ناکارہ ابوالقاسم نعمانی غفرلہٗ
جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس
۲۳؍ محرم الحرام ۱۴۳۱ھ/۱۰؍ جنوری ۲۰۱۰ء یکشنبہ
٭٭٭٭٭