جسم وقالب کے لحاظ سے اگرچہ مولانا سے جدا ہوچکے ہوتے ہیں مگر قلب ہمیشہ مولانا ہی سے وابستہ رہتا ہے ، خواہ وہ مولانا کی خدمت سے رخصت ہوکر کسی مرکزی ادارہ میں تکمیل علوم کے مراحل طے کررہے ہوں یا فارغ ہوکر کارگاہِ حیات میں اپنی ذمہ داریاں نباہنے سے نبرد آزما ہوں ، ان کو قدم قدم پر علمی واصلاحی رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہو یا ذاتی اور گھریلو مسائل میں مشوروں کی ضرورت ہو یا کسی قسم کی ذہنی الجھن کا شکار ہوں وہ بلا تکلف اپنے مسائل مولانا کے سامنے رکھ دیتے ہیں ،اور مولانا پوری بشاشت اور جذبہ خیر خواہی کے ساتھ ان مسائل کا حل فرماتے ہیں ۔ خط پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مخاطب سراپا گوش بن کر مولانا کے سامنے بیٹھا ہے اور مولانا اپنے مخصوص انداز میں اس سے گفتگو فرمارہے ہیں ، کبھی مسکرارہے ہیں ، کبھی ڈانٹ رہے ہیں اور کبھی محبت کے ساتھ دھول جمارہے ہیں ، اور خط مکمل ہونے کے بعد چشم تصور یہ منظر دکھلاتی ہے کہ سائل مطمئن ومسرور ہوکر مولانا سے رخصتی مصافحہ کررہا ہے۔
شائع شدہ خطوط کا قاری بھی خود کو اس محفل میں شریک محسوس کرتا ہے اور اس کے مسائل اور الجھنوں کا حل بھی ساتھ ہی ساتھ ہوتا رہتاہے ۔
حضرت مولانا کے خطاب میں سامعین کی محویت کا جو عالم ہوتا ہے وہی کیفیت ان کی تحریر میں قاری کے اوپر طاری ہوجاتی ہے ۔ گفتگو بھی مدلل ، مسلسل رواں دواں اور مربوط ودل نشیں ہوتی ہے ،اور تحریر کی بھی وہی شان ہوتی ہے ۔ مولانا اعجاز احمد صاحب کو مبدأ فیاض سے بہت کچھ عطا ہوا ہے ؎
مبدأ فیاض سے کیاکیا نہیں ان کو ملا
اپنی ذاتی صلاحیت کے ساتھ بہترین اساتذہ سے تحصیل علم کے مواقع بھی میسر آئے ، اور نامور مصلحین اور اکابر کی طویل صحبت اور استفادہ کا بھی حظ وافر عطا ہوا ہے۔ ایسا کم ہوتا ہے کہ ایک ہی شخص کامیاب مدرس ، نامور خطیب وواعظ ، پختہ کار اہل قلم اور بحر معرفت کا بہترین شناور بھی ہو ، لیکن مولانا میں یہ ساری خوبیاں بیک وقت اس