محترم ومکرم جناب انیس بھائی ! زید مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
چند روز قبل خیرآباد جانے کا اتفاق ہوا ، تو میرے کرم فرما ؤں میں سے ایک صاحب حاجی نور الہدیٰ ( مستری ) سے ملاقات ہوئی ، انھوں نے یہ مسرت خیز خبر سنائی کہ اس سال آپ بھی حج کی سعادت میں شریک تھے ، اور یہ کہ اس مبارک سرزمین میں ، مبارک ساعات میں اس دورافتادہ ، ناکارہ کا ذکر آپ کی مبارک زبان پر آیا ، اور اسی واسطے سے حاجی نور الہدیٰ سے تعارف ہوا ۔ کتنی خوشی ہوئی یہ سن کر ! میں بیان نہیں کرسکتا ، ایک تو اس سرزمین قدس پر آپ کی حضوری ، پھر آپ جیسے صاحب دل کی زبان پر ایک گنہگار کانام اور اس کی یاد ع
بریں مژدہ گرجاں فشانم رواست
محبت کی ایک ہوک اُٹھ رہی ہے جی چاہتا ہے کہ ابھی آپ کی خدمت میں حاضری دوں ، اور ان آنکھوں کی زیارت کروں ، جو بیت اﷲ کا نقشہ اور روضۂ اطہر کا سراپا اپنے اندر سجاکر لائی ہیں ، اﷲ نے بڑا کرم فرمایا کہ اپنے گھر میں حاضری کی توفیق بخشی ۔ آپ تو پہلے ہی سے ماشاء اﷲ ، انشاء اﷲ بخشے بخشائے ہیں ، وہاں جاکر کیا عروج نصیب ہوا ہوگا ، کیسی طہارت حاصل ہوئی ہوگی ، پھر معلوم ہوا کہ والد محترم بھی ساتھ تھے ، دربارِ خداوندی کی حاضری وحضوری ، اور والد گرامی کی خدمت ومعیت ، بس نورٌ علیٰ نور کا مصداق ! اﷲ تعالیٰ اس سفر حج کو ، اس کے مناسک کو اپنی شانِ عالی کے مطابق قبول فرمائے ۔ جی تو یہی چاہتا ہے کہ حاضر ہوں ، اور آپ کے پاؤں کو بوسہ دوں ، جو عرفات ومنیٰ ومزدلفہ کے غبار سے سنور کے آئے ہیں ، مگر کیا کروں کہ کچھ اعذار وعوارض کی وجہ سے سفر کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتا، ہلکے پھلکے سفر بھی متروک ہیں ۔ بس دل کھنچتا