محترم ومکرم! زید مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
مزاجِ گرامی!
آپ کا نوازش نامہ ملا اور میں شش وپنج میں پڑگیا ، جانتا تھا کہ رسوائی ہوگی ، لیکن اس عنوان سے ہوگی ، اس کا خیال نہ تھا ۔ اب آپ کے سوالات پڑھتا ہوں اور اپنے آپ سے جواب پوچھتا ہوں ، تو بجز سناٹے کے کوئی چیز محسوس نہیں ہوتی، ایک کنکر سے پوچھئے کہ تمہارا حسب نسب کیا ہے؟ تووہ بے چارہ کیا بتائے گا؟ میں نے کیا پڑھا ہے ، کیا پڑھا یا ہے؟ کیا لکھا ہے اور کتنا لکھاہے؟ اس کو بتاتے ہوئے شرم آتی ہے، کچھ پڑھا ہوتو بتاؤں ، کچھ پڑھایا ہوتو لکھوں ؟ بہت دیر سے سوچ رہاہوں ، اندر سے صرف یہ جواب آرہا ہے ، کہ اب سے معذرت کردو اور خاموش بیٹھ جاؤ، لیکن نہ جانے کس جھونک میں ،میں نے اپنے کو ابتلاء میں ڈال دیا ہے، اب معذرت کرنے کا بھی یارا نہیں ہے، اس لئے مجبوراً ہی سہی ، کچھ نہ کچھ سنا ڈالوں ، بے ترتیب ہے ، ترتیب آپ دے لیں گے۔
ایک شخص دیہات میں پیدا ہوا، تقدیر نے اسے مبارکپور جامعہ عربیہ احیاء العلوم میں پہونچادیا، وہاں چند سال تک رہا، محنت سے کوئی واسطہ نہ رہا، لہوولعب میں مشغول رہا۔ وہاں سے اٹھاتو دیوبند پہونچ گیا، وہاں کچھ حالات ایسے ہوئے کہ مشیت خداوندی نے اسے امروہہ پہونچادیا، امروہہ میں دارالعلوم حسینیہ ،محلہ چلہ میں دورۂ حدیث حضرت مولانا محمد افضال الحق صاحب اعظمی قاسمی مدظلہٗ سے پڑھا، ۱۳۹۰ھ میں رسمی فراغت ہوئی ۔ پھر چند ماہ گھر رہ کر قرآن حفظ کیا، کچھ دنوں مسافرانہ امروہہ میں رہ کر تدریس کاآغاز کیا۔ چند ماہ میسور شہر میں امامت اور خطابت کی