ہے کہ جدید تقاضوں اور جدید تبدیلیوں سے بہت حدتک ناواقف تھا، اس خطرہ کی سنگینی سے بہت حد تک بے خبر تھا جو یورپ کی بڑھتی ہوئی طاقت نے ترکی کے لئے پیدا کردیا تھا، اس گروہ نے سلطان سلیم ثالث (۱۷۸۹ء ، ۱۸۰۷ء) اور اس کے جانشین سلطان محمود (۱۸۰۸ء ، ۱۸۳۹ء) کی نئی فوجی تنظیمات اور جدید اصلاحات کی بھی مخالفت کی تھی، جو انہوں نے ترکی کو عسکری وعلمی لحاظ سے یورپ کی ابھرتی ہوئی طاقتوں کے دوش بدوش لے چلنے کے لئے نافذ کی تھیں۔
جہاں تک نئی نسل کا تعلق ہے (جو پیرس، برلن اور لندن یا خود اپنے ملک کی بعض جدید ومغربی طرز کی تعلیم گاہوں میں زیرتعلیم تھی) اس کا نشوونما، دین کی بے وقعتی، دینی مستقبل سے مایوسی، اہل دین کی تحقیر، مغربی تمدن کی غیرمحدود تقدیس وعقیدت، مادی اقدار اور مغربی رجحانات وخیالات کے سامنے مکمل سپرافگندگی پر ہوا تھا، اس نسل میں دور رس اور بالغ نظر فکر کا فقدان تھا، جو مغربی فلسفۂ حیات کی تنقید پر قادر ہو، اور یہ محسوس کرسکتا ہو کہ اس کے کمزور حصے کیا ہیں کس جگہ افراط وتفریط سے کام لیا گیا ہے، کیا چیزیں ترکی کے لئے (جو عالم اسلام کا قائد ورہنما تھا) مفید ہیں، اور ان سے استفادہ واقتباس جائز بلکہ ضروری ہے، اور کیا چیزیں اس کے مزاج اور تاریخ، دنیا میں اس کے مقام اور کردار سے مطابقت نہیں رکھتیں اور اس کے بلند قامت پر راست نہیں آتیں؟
اس نسل کی قیادت زیادہ تر ان معلمین یا فوجی تعلیم حاصل کرنے والوں پر مشتمل تھی، جن کی ثقافت نہ وسیع تھی، نہ گہری، نہ آزاد، یا وہ لوگ تھے جنہیں ان کی زندگی کے کچھ خاص تجربات، علماء اور قدامت پرستوں کی سرد مہری، بے توجہی اورجمود وتنگ نظری، قدیم نسل اور اس کے رہنماؤں میں نفاق اور قول وعمل کے تضاد کا تجربہ کرنے اور ملک میں انحطاط وپسماندگی کے عام مناظر کے مشاہدہ نے ہر قدیم چیز اور ہر قسم کے موجود نظام سے متنفر وباغی بنادیا تھا، اور ترکی کو جلد سے جلد