’’حریت ومساوات‘‘ کا نعرہ بلند کررہی تھی، اور قدیم طرزِ زندگی اور ماحول کو یکسر بدل دینے کے درپے تھی (خواہ وہ کسی شکل میں بھی ہو) اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سوسائٹی میں ایک عام بے چینی اور بددلی پھیل گئی، ان حالات کے خلاف دلوں میں نفرت، کراہت اور بغاوت کا لاوا پھوٹ پڑا، اور انجام اور نتائج سے قطع نظر یہ آگ برابر تیز ہوتی گئی، اسلامی ممالک میں جو آئے دن فوجی انقلابات اور بغاوتیں ہوتی رہتی ہیں، اس کا راز اور اصل سبب یہی بے چینی اور بددلی ہے۔
شاید عالمِ اسلام میں ان انقلابات کی صلاحیت دوسرے ممالک کے مقابلہ میں اس لئے بھی زیادہ ہے کہ عالمِ اسلام میں ہزار کمزوریوں کے باوجود دینی شعور اور دینی جذبہ بہرحال موجود ہے، جو احتجاج و بغاوت اور اصلاحِ حال کی عملی جدوجہد پر کسی نہ کسی وقت آمادہ کردیتا ہے، اور لوگ غلط اور صحیح طریقہ پر موجودہ صورتِ حال سے چھٹکارا حاصل کرلیتے ہیں۔
بہرحال جب تک عالمِ اسلام کے کسی حصہ میں عام پسماندگی اور کمزوری پائی جاتی ہے، جب تک اس کے بعض طبقوں کی غربت وافلاس کا یہ عالم ہے کہ اس کے لاکھوں افراد کو ایک وقت کا کھانا اور بدن ڈھکنے کے لئے کپڑا میسر نہیں، جب تک ایک حلقہ میں بے اندازہ دولت اور مجرمانہ زر اندوزی اور عوام کی دولت کا بے حیائی کے ساتھ استعمال بے عقلی اور جنون کی حد تک جاری ہے، جب تک امراء اور اہلِ ثروت کے تعیش اور فسق و فجور کے افسوسناک قصے زیب داستان و نُقلِ محفل بنے رہتے ہیں، جب تک جہالت و ناخواندگی عام ہے، اور عوام کا بڑا حصہ تعلیم سے محروم ہے، اور عالمِ اسلام (جس کا بڑا حصہ مشرق میں واقع ہے) یا اس کے کسی حصہ کی وہی صورتِ حال قائم رہتی ہے جس کی تصویر بیسویں صدی کی ابتدا میں ترکی کے مشہور اسلامی الفکر شاعر وادیب محمد عاکف نے بڑی خوبصورتی سے کھینچی ہے تو حساس طبیعتوں کا اس دردناک صورتِ حال کے خلاف جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوجانا ہر طرح قرینِ قیاس ہے، محمد عاکف اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں:۔