سعودی حکمرانوں کی طرف سے تھی، دونوں محاذوں کی کشمکش ذہنی اور عسکری میدانوں میں برسوں جاری رہی۔
اس کشمکش میں ملک میں تباہی آئی، انقلابی حکومت کا عمل دخل جہاں تک تھا، وہاں اسلامی قدروں کو نقصان پہنچا لیکن ملک میں تمدنی سہولتوں میں اضافہ ہوا، شہری زندگی میں اصلاح و ترقی ہوئی، البتہ قدیم و جدید کے درمیان کوئی معتدل راہ نہ بن سکی، جدید پسند طبقہ چونکہ طاقت و اقتدار رکھتا تھا، اس لئے اس کے اثرات زیادہ پڑے، یہ طبقہ ملک کی زندگی کو خالصۃً نامذہبی بلکہ ملحدانہ رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتا رہا، دوسری طرف جاہل عوام اور ان کے مذہبی اور قدیم سرکاری پیشواؤں کا طبقہ تھا، جس کی تعلیم و تربیت قدیم مدرسوں اور مکتبوں میں ہوئی تھی، جہاں عصر جدید کے خطروں اور اس کے مسائل سے نہ تو بحث کی جاتی تھی اور نہ ان کے مقابلہ کے لئے ضرورت اور وقت کے مطابق مناسب تدابیر اختیار کرنے کی فکر کی جاتی تھی، جہاں کا نصاب و نظام ایسے لوگوں کو تیار کرنے سے بالکل قاصر تھا، جو وقت کے فتنوں کو بروقت شناخت کرکے ان کے مقابلہ کے لئے مؤثر تدابیر اختیار کرسکیں، چنانچہ یہ لوگ جن قدروں اور افکار کے علمبردار تھے، وہ تیزی کے ساتھ ملک کی زندگی میں اپنا اثر و مقام کھوتی رہیں۔
یمن کے جنوب میں عدن اور حضرموت کا علاقہ واقع ہے، یہ ایک عرصے تک انگریزوں کے زیر اقتدار رہا ہے، چنانچہ یہاں انگریزوں ہی کے زمانے سے دو طبقے بن چکے تھے، آزادی ملنے پر یہاں کی چھوٹھی چھوٹی سترہ حکومتیں ایک وفاق میں جنوبی یمن کے نام سے منسلک ہوگئیں اور اس علاقے نے انگریزوں کے اثر سے نئے تمدن اور