اس لیے کہ وہ اپنے دینی اصولوں، ایمان کی دولت اور اپنی تاریخی میراث اور زندگی اور قوت کے اس عظیم سر چشمہ سے بے تعلق ہونے پر تیار نہیں ہیں جو اسلام نے ان کو عطا کیا ہے، اور مصلحین و مجددین امت نے اس کو باقی رکھنے کے لیے اپنا خون پانی ایک کیا ہے، اس کے لیے ان کو ایک طویل المیعاد اور وسیع پیمانہ پر توڑ پھوڑ کی کاروائی کرنی پڑ رہئ ہے، اور متعدد سمتوں سے مقابلہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دوسری طرف خود مسلم قوم ان قائدین اور زعماء سے سخت نالاں اور پریشاں ہے، اس لیے کہ وہ اس کے مزاج اور ذوق سے ہمیشہ بر سر جنگ رہتے ہیں، وہ ان نعروں اور اعلانوں سے اس کی قیادت کرنا چاہتے ہیں جن کو قبول کرنے کے لیے وہ تیار نہیں ہے، اور جو اس کے اندر کوئی جوش اور کوئی امنگ پیدا نہیں کرتے وہ نہ اس کے لیے موت کو آسان اور زندگی کو دشوار بنا سکتے ہیں نہ جان و مال کی قربانی، ہجرت، ترکِ وطن اور خواہشات اور شخصی انانیت پر قابوحاصل کرنے کی صلاحیت ہی پیدا کر سکتے ہیں، قوم کی رگِ حمیت کو چھیڑنے اور اس کے جذبات کو ابھارنے میں ان نعروں اور دعووں کے بے اثری اور ناکامی ان قائدین پر ظاہر ہو چکی ہے، چنانچہ نازک اور سنگین لمحات اور فیصلہ کن معرکوں میں انہوں نے ہمیشہ دینی نعروں، اسلام کے راستہ میں جہاد اور خدا کے راستہ میں شہادت کے نعروں کی پناہ لی، لیکن جب جنگ ختم ہو گئی اور ملک کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں آئیں تو انہوں نے وہی پرانے قومی اور وطنی نعرے دہرانے شروع کئے اور یہ فرض کر لیا کہ وہ ایک ایسی قوم پر حکومت کر رہے ہیں جو کوئی ایسا مذہب نہیں رکھتی جس سے اس کو عشق ہے اور وہ اس کے راستہ میں جان تک دینے پر آمادہ ہے اور نہ کسی ایسے دینی جذبہ کی حامل ہے جو تھوڑی سی تربیت اور پرورش کے بعد دنیا کی سب سے عظیم طاقت بن سکتی ہے اور جس کے اندر بڑے بڑے امکانات پوشیدہ ہیں۔