دونوں ملکوں میں ان خاندانوں نے حکومت کی داغ بیل ڈالی، جو اپنی شرافت نسبی و علمی فضیلت کے ساتھ اپنے مستقل روحانی سلسلے رکھتے تھے، اور ان ملکوں کے مسلمان (عرب و بربر) ان کو احترام و عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، ان کو اپنے ملکوں کا سیاسی قائد و رہنما سمجھنے کے ساتھ، بلکہ اس سے زیادہ اپنا روحانی پیشوا اور دینی مقتدا بھی سمجھتے تھے۔ مراکش میں صدہا سال تک سیدی ادریس، اور سیدی علی الشریف کے خاندان نے حکومت کی اور لیبیا کو سیدی احمد الشریف السنوسی اور ان کے رفقاء کے مجاہدانہ کارناموں اور سرفروشیوں کی بدولت اٹلی کی غلامی سے آزادی اور خود مختار حکومت کا موقع نصیب ہوا۔ لیکن اب یہ دونوں ملک تہذیب و تمدن، تعلیم و تربیت کی پالیسی، زندگی کے مختلف شعبوں میں منصوبہ بندی کے کام میں اس وقت مغرب ہی کو عملاً اپنا امام مانتے ہیں، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور جدید تعلیم کے ذریعہ ایک ایسی نسل کے تیار کرنے میں مصروف ہیں، جس کے احساسات و جذبات اور جس کے اقدار و معیار اس نسل سے بنیادی طور پر مختلف ہوں گے، جس کی قربانیوں اور سرفروشیوں کی بدولت ان ملکوں میں آزادی کی صبح طلوع ہوئی اور انہوں نے عزت و احترام کا مقام حاصل کیا، دونوں ملکوں میں اشتراکی رحجان پایا جاتا ہے، دونوں جگہ اسلامی فکر و دعوت کے علمبرداروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لیبیا نے جس فلسفہ و مسلک کو اپنایا ہے، وہ اسلام، اشتراکیت اور قومیت عربیہ کا مجموعہ ہے، اس کے قائد معمر القذافی نے مصر کے سابق صدر جمال عبد الناصر کو ہمیشہ اپنا استاد و مربی اور اپنے لئے مثالی شخصیت تسلیم کیا۔ دونوں ملکوں کے سربراہوں کے مقاصد و اعلانت کے غیر واضح ہونے کے باوجود اتنی بات صاف نظر آتی ہے کہ دونوں نے مغرب کو فکری اور تہزیبی طور پر اپنا قائد و رہنما تسلیم کر لیا ہے، اور وہ محتاط و تدریجی طور پر اسی منزل کی طرف سرگرم سفر ہیں۔