پیش ازہمہ شاہان غیور آمدہ
ہرچند کہ آخر بظہور آمدہ
اے ختم رسل قرب تو معلومم شد
دیر آمدہ ز راہ دور آمدہ
حمدوصلوٰۃ کے بعد گزارش ہے کہ آج کل بعض نا سمجھ مدعیانِ محبت نے حضور اکرم ﷺ کے ذکرِمبارک کو بھی آپ ﷺ کی ولادت کے زمانہ کے ساتھ خاص کردیاہے اور وہ بطورِ رسم کے ماہِ ربیع الاول میں آں حضرت ﷺ کا ولادت کا یوم منانے لگے ہیں۔ جیساکہ بعض مدعیانِ محبتِ حضرت حسین ؓ نے یومِ حسین منانے کے لیے ماہِ محرم کی دسویں تاریخ کو خاص کر رکھاہے۔ حالاں کہ حضور اکرم ﷺ کا ذکرِمبارک ایسی با برکت چیز ہے کہ اس کو ہر وقت مسلمانوں کے رگ وپے میں سرایت کرجانا چاہیے تھا اور کوئی وقت آپﷺ کے تذکرہ سے خالی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پھر نہ صرف یہ کہ آپﷺ کی ولادتِ شریفہ اور معراج شریف ہی کا ذکر قابلِ بیان ہے بلکہ آپ کی ہربات یہاں تک کہ آپﷺ کی نشست و برخاست اور طعام و لباس اخلاق و عبادات، مجاہدات و ریاضات افعال و احکام اور اوامر و نواہی سب کا ہی تذکرہ کرنا مسلمان کے لیے نیکی اور باعثِ ثواب ہے، کیوں کہ آں حضرت ﷺ کااُٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا حتیٰ کہ حوائجِ ضروریہ میں مشغول ہونا سب ہی عبادت ہے اورنماز روزہ وغیرہ احکامات کی تبلیغ وتعلیم کرنابھی عبادت میںشامل ہے۔ اس لیے حضور ﷺ کے ان سب حالات کا بیان اور ذکر کرنا ذکر رسول میں داخل اور موجب برکت ہے۔ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مرادآبادی کاارشاد ہے کہ ہم توہر وقت ذکرمیلاد کرتے ہیں، کیوں کہ لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ (ﷺ) پڑھتے رہتے ہیں، اگرحضور ﷺ پیدا نہ ہوتے توہم یہ کیوں پڑھتے؟ توکلمۂ طیبہ پڑھنا بھی آپﷺ کی ولادت کاذکرکرناہے۔ غرضے کہ حضور ﷺ کاذکر مبارک توہروقت ہی ہونا چاہیے اور آپﷺ کی ہر ادا کا ذکر ہونا چاہیے، کیوں کہ محب کو محبوب کی ہر ادا پسند ہوتی ہے اور چوں کہ احکامِ شرعیہ اور اوامر و نواہی بھی سب حضور ﷺ کے واسطہ سے اور آپﷺ کے ہی طفیل امت کو عطاکیے گئے ہیں اس لیے احکامِ شرعیہ کاتذکرہ کرنا بھی آں حضرت ﷺ کاہی تذکرہ کرناہے۔ صرف ولادتِ شریفہ ہی کوآں حضرت ﷺ کاتذکرہ سمجھنا بہت بڑی غلطی اور محبت کی حقیقت سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ اگر حضور ﷺ سے محبت ہے تو سمجھنا چاہیے کہ ذکرِولادت جس طرح آپ کاذکرہے ایسے ہی احکامِ شرعیہ اور اوامرو نواہی کاذکربھی آپﷺ ہی کاذکرہے۔