کی عظمت اور برکت میں اور بھی چار چاند لگ گئے اور اس کی شان دو بالا ہوگئی۔ اس رات کی فضیلت میں یہی بات کچھ کم نہیں تھی کہ اس کی فضیلت کے بیان کے لیے قرآن پاک میں ایک پوری سورت (سورۂ قدر کے نام سے) نازل ہو چکی ہے جس میں بیان فرمایا گیا ہے کہ اس رات میں عبادت کرنا ہزار مہینہ کی عبادت سے افضل اور بہتر ہے۔ جتنا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے ملتا ہے اس سے کہیں زیادہ ثواب صرف اس ایک رات کی عبادت میں ملتا ہے، اور اس زیادہ ثواب کی کوئی حد بھی بیان نہیں فرمائی گئی۔
اس بنا پر اگر کوئی یوں امید رکھے کہ بے شمار ثواب ملے گا جو شمار ہی میں نہیں آسکتا تو ان شاء اللہ تعالیٰ اس کو ’’أَ نَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ‘‘ کے مطابق بے شمار ثواب ملے گا۔ حق تعالیٰ بندے کے ساتھ اس کے ـظن کے مطابق معاملہ فرماتے ہیں۔ یہ جو مشہور ہے کہ اس شب کا ثواب ہزار مہینہ کے برابر ہے، یہ غلط ہے، بلکہ اس رات کی عبادت کا ثواب ہزار مہینہ سے کہیں زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ بہت سی احادیث اس کے فضائل اور اس میں عبادت کرنے کی ترغیب میں وارد ہوئی ہیں۔ ’’درمنثور‘‘ میں حضرت انس ؓ نے حضور ﷺ سے یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ شبِ قدر حق تعالیٰ شانہ نے میری امت کو مرحمت فرمائی ہے پہلی اُمتوں کو نہیں ملی۔
ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہوا اُس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
فائدہ: ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ محض اللہ کی رضا اور ثواب کے حصول کی نیت سے کھڑا ہوا، یعنی عبادت کرے ریا وغیرہ کسی بدنیتی سے نہ کھڑا ہو۔ کھڑا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھے اور اسی حکم میں ہے کسی اور عبادت تلاوتِ قرآن اور ذکر وغیرہ میں مشغول ہونا۔
فائدہ: حدیثِ بالا اور اس جیسی احادیث میں گناہ سے مراد علما کے نزدیک صغیرہ گناہ ہوتے ہیں۔ کیوںکہ کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ احادیث میں صغائر (چھوٹے) کی قید دو وجہ سے مذکور نہیں ہوئی: اول تو یہ کہ مسلمان کی شان یہ ہے ہی نہیں کہ اس کے ذمہ کوئی کبیرہ گناہ ہوکیوں کہ اگر کبیرہ گناہ اس سے صادر ہوجاتا ہے تو اس وقت تک اس کو چین ہی نہیں آتا جب تک کہ وہ اس گناہ سے توبہ نہیں کرلیتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب لیلۃ القدر جیسے مواقع آتے ہیں تو اپنی بداعمالیوں پر ندامت اس کے لیے گویا لازم ہے اور توبہ کی حقیقت گزشتہ پر ندامت اور آیندہ کو نہ کرنے کا عزم ہے۔
شبِ قدر کی تعیین میں علما کے بہت اقوال ہیں۔ راجح قول یہ ہے کہ وہ اس مبارک مہینہ کی آخری عشرہ کی پانچ طاق راتوں