تو اس سے کسی قسم کے خطرہ کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اگر انسانیت کا لبادہ اوڑھ کر کوئی ناگ چل پھر رہا ہو تو اس سے کسی قسم کے نقصان کی توقع نہ کرنا اور آنکھیں بندکر کے بیٹھے رہنا یقینا نقصان دہ ہوگا۔ اسی طرح وہ شخص جو پولیس کی دس نمبر کی فہرست میں ہو اس قدر انسانیت سوز حرکات نہیں کر سکتا۔ جس قدر کہ وہ شخص جو شرافت اور مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اس قسم کی حرکات کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ پولیس کی دس نمبر کی فہرست میں آنے والا شخص اگر کوئی ایسی حرکت کرتا ہے تو اس کا علم ساری دنیا کو ہوتا ہے اور پولیس فوراً اس کی تلاش شروع کر دیتی ہے۔ لیکن شرافت اور مذہبیت کا لبادہ اوڑھ کر بدعنوانیوں کا ارتکاب کرنے والا شخص شدید سے شدید بھیانک اور ذلیل ترین حرکات کا مرتکب ہونے کے باوجود شریف کا شریف اور فرشتہ سیرت کا فرشتہ سیرت ہی رہتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس قسم کا شخص اپنے تقدس کو پردے میں درجنوں آرزؤں، سینکڑوں امنگوں اور ہزاروں حسرتوں کا خون کرتا چلا جاتا ہے اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ وہ جماعت جس کا نصب العین سیاسی ہو اس کے متعلق ہر شخص جانتا ہے کہ فلاں جماعت سیاسی ہے۔ لہٰذا اس پر اسی انداز سے غور کیا جاتا ہے اور اگر وہ جماعت ملک وقوم کے لئے کوئی خطرناک اقدام کرے تو اس کے خلاف چارہ جوئی کے لئے کسی تردد کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بلکہ آسانی سے اس کا احتساب ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ جماعت جس کا منشور مذہبی ہو جس کا نصب العین دنیائے مذہب میں جینا وار مرنا ہو جس کا دعویٰ یہ ہو کہ اس کا ملک کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور پھر وہ اندرونی طور پر ملکی سیاسیات سے گہرا تعلق بھی رکھے اس جماعت کے متعلق غور وفکر ہر زندہ ملک مضبوط حکومت اور بیدار عوام کے لئے لازمی ہے۔ جہاں تک اس جماعت کی گذشتہ بیالیس سالہ تاریخ کاتعلق ہے ہر شخص جانتا ہے کہ اس جماعت نے عملاً ہمیشہ خاموشی سے سیاسیات میں حصہ لیا اور قولاً سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور اس جماعت کا یہی اقدام ملک وقوم کے لئے سخت بھیانک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جماعت کا رہنما سیاست دان ہے اور اس کے اغراض ومقاصد یہ ہیں کہ چور دروازے سے زمام حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لی جائے اور دنیا کو خبر اسی وقت ہو جب چڑیاں کھیت چگ جائیں۔ ۱۹۴۷ء سے قبل جب ہندوستان میں انگریز حکمران تھے تو انگریزی حکومت کی خوشامد اور اس کی حمد وثناء میں قصیدے گا کر زمین وآسمان کے قلابے ملادئیے۔ چونکہ حکومت انگریزوں کی تھی اور ملک میں مختلف سیاسی پارٹیاں قائم تھیں۔ اس لئے اس وقت شاطر سیاست نے کانگریس سے گٹھ جوڑ قائم رکھا۔ اس پارٹی کے ساتھ روابط کے قیام کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت لیگ ملک میں غیرمقبول تھی اور کانگریس زبان زد خلائق تھی۔ اس لئے مسلم لیگ سے تعاون کی بجائے کانگریس