وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ حرفِ آغاز اللہ تعالیٰ نے اِنسان کو جو علوم دیے ہیں اُن میں سے ایک اہم علم”علم الفرائض“بھی ہے،اِس علم کی اہمیت و عظمت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ خاتم النبیین ﷺنےاِس کو ”نصف العلم “قرار دیتے ہوئے اِس کے سیکھنے اور حاصل کرنے کی حد درجہ تلقین و تاکید فرمائی ،اور اِس حقیقت کو واضح فرمایا کہ سب سے پہلے یہی وہ علم ہے جو میری اُمّت سے اُٹھالیا جائےگا،اور فتنوں کے دَورِ جہالت میں لوگوں کی اِس کیفیت کو بھی بیان فرمایا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ دو شخصوں کا وراثت کے کسی مسئلہ میں باہمی جھگڑا ہوگا لیکن جہالت اور اِس علم سے دوری کی وجہ سے حالت یہ ہوگی کہ اُنہیں کوئی ایسا شخص نہیں ملےگا جو اُن کے درمیان فیصلہ کرسکے۔لہٰذا ضرورت اِس بات کی ہے کہ اِس علم کو سیکھا،پڑھا اور سمجھا جائے ،اِسے باقی اور زندہ رکھنے کی کوشش کی جائے،اِس لئے کہ ہر شخص اور ہر گھرانے کو اِس علم کی ضرورت ہے،کیونکہ ظاہر ہےکہ ہر گھر میں موت واقع ہوتی ہے اور ہر شخص نے اِس دنیا سے جانا ہے لہٰذا موت کے بعد کے مسائل سے آگاہی بہت ضروری ہے،تاکہ خلافِ شرع اور خلافِ سنّت کسی کام کا اِرتکاب نہ ہو ،اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی اور حکم عدولی نہ ہو ۔ پھر اِس علم کے حاصل کرنے کے دو درجے ہیں : ایک درجہ اِس علم کی بنیادی اور ضروری معلومات کا ہے ،جس کا حاصل کرنا تو ہر مسلمان پر فرض ہے اور دوسرا اِس علم