وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
امام ابوحنیفہ :کچھ نہیں ملے گا ، اِس لئے کہ اُسے اسوء الحالَین(یعنی دو حالتوں میں جو کمتر ہو وہ) ملتا ہے اور اِس صورت میں جبکہ معاملہ وجدان اور حرمان کے درمیان دائر ہے، اُس کے لئے اسوء الحالَین یہی ہے کہ اُسے کچھ نہ دیا جائے ۔ امام شافعی :ورثاء کو اَقل حصہ ملے گا اور خنثیٰ کے حصہ کو موقوف رکھیں گے جب تک کہ اُس کے مرد یا عورت ہونے کا معاملہ راجح نہ ہوجائے ۔ امام مالک واحمد : خنثیٰ کے وارث ہونے کی صورت میں جو حصہ بنتا ہے اُس کا نصف دیا جائے گا ۔تیسری صورت: جبکہ ترکہ ملنے میں اقل و اکثر کا فرق ہو : یعنی خنثیٰ کو مرد و عورت میں سے کسی ایک صورت کے اندر زیادہ وراثت ملتی ہواور دوسری صورت میں کم ملتی ہو ، اِس صورت میں بھی ائمہ کرام کا اختلاف ہے: ٭امام ابوحنیفہ :خنثیٰ کو اسوء الحالَین(دوحالتوں میں سے کمتر)اور ورثاء کو احسن النصیبَین (دو حصوں میں سے اچھےحصہ)کے اعتبار سے وراثت ملے گی ۔ ٭امام مالک :خنثیٰ کو مرد اور عورت دونوں کے اعتبار سے آدھا آدھا حصہ ملے گا ٭امام شافعی :خنثیٰ اور دیگر ورثاء کو اقلّ النصیبین(دو حصوں میں کم حصہ ) دے کر باقی کو موقوف رکھیں گے جب تک کہ اُس کا معاملہ واضح نہ ہوجائے یا ورثاء اور خنثیٰ آپس میں کسی بات پر صلح نہ کرلیں ۔ ٭امام احمد :اگر مستقبل میں مرد یا عورت ہونے کا معاملہ راجح ہونے کی امید ہو توامام شافعی کے مسلک کے مطابق خنثیٰ اور ورثاء کو اَقل حصہ دے کر معاملہ کو موقوف رکھا جائے گا ۔اور اگرمستقبل میں خنثیٰ کے مرد یا عورت ہونے کا معاملہ راجح