وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
ہوجائے ۔ پہلے قول کی دلیل : حدیث میں ہے:”لَا يَرِثُ المُسْلِمُ الكَافِرَ، وَلَا الكَافِرُ المُسْلِمَ “۔(ترمذی: 2107) مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا ۔ اِسی طرح ایک اور حدیث میں ہے:”لَا يَتَوَارَثُ أَهْلُ مِلَّتَيْنِ “۔(ترمذی:2108) یعنی دو مختلف ملّت والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے ۔ اور پہلے قول کی دلیل کا جواب یہ ہےکہ حدیث میں اِسلام کے بلند ہونے سے مراد وراثت میں بلند ہونا نہیں بلکہ دلائل و حجت کے اعتبار سے بلند ہونا ہے یا آخرت میں بہترین انجام کے اعتبار سے بلند ہونا مرادہے ۔(الشریفیہ:14)(الفقہ الاسلامی:10/ 7719)تیسرا مسئلہ:مسلمان اور مرتد کے درمیان وراثت : اِس پر سب کا اتفاق ہے کہ مرتد کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوتا ، البتہ اِس میں اختلاف ہے کہ مسلمان مرتد کا وارث ہوتا ہے یا نہیں : ٭―احناف :مسلمان مرتد کا وارث ہوتا ہے ۔ ٭―ائمہ ثلاثہ :وارث نہیں ہوتا ، مرتد کا تمام مال مالِ فَی ہے ، بیت المال میں داخل کیا جائے گا ۔ پھر حضرات احناف کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ ارتداد سے پہلے کا کمایا ہوا مال مسلمان وارث کو ملے گا یا اِرتداد کے بعد کا بھی : صاحبین :تمام مال ملے گا ، خواہ ارتداد سے پہلے کمایا ہو یا بعد میں ۔ امام صاحب:صرف ارتداد سے پہلے کا مال ملے گا ، ارتداد کے بعد کا مال مالِ فَی