وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
٭―احناف :زیادہ سے زیادہ حمل کی مدّت دو سال ہے ۔ ٭―ائمہ ثلاثہ :زیادہ سے زیادہ حمل کی مدّت چار سال ہے ۔ ٭―امام زھری :زیادہ سے زیادہ حمل کی مدّت سات سال ہے ۔ ٭―لیث بن سعد:اکثر حمل کی مدّت تین سال ہے۔(الشریفیہ مع الہامش: 130)دوسرا اختلافی مسئلہ:حمل کی موجودگی میں ترکہ کی تقسیم : حمل بھی وارث ہوتا ہے اور اُ س کے وارث ہونے کے لئے صحیح فیصلہ اُس کی ولادت کے بعد کیا جاسکتا ہے ، کیونکہ وضع حمل سے قبل یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ایک ہے یا ایک سے زائد ، پھر لڑکا ہے یا لڑکی ۔ ظاہر ہے کہ ہرصورت میں خود اُس حمل اور دیگر ورثاء کے حصہ میں فرق پڑتا ہے ، لہٰذا اولیٰ تو یہی ہے کہ وضعِ حمل یعنی ولادت ہونے تک انتظار کرلیا جائے تاکہ ولادت کے بعد جو صورتحال سامنے آئے اُسی کے مطابق ترکہ کی تقسیم واقع ہو ۔ لیکن ولادت کا انتظار کرنا کیا ضروری ہے اور وضع حمل سے پہلے وراثت تقسیم کی جاسکتی ہے یا نہیں ، اِس میں اختلاف ہے : ٭―امام مالک :ولادت سے قبل وراثت تقسیم نہیں کی جاسکتی ، تقسیم کو موقوف رکھنا ضروری ہے اور ولادت کے بعد ترکہ تقسیم ہوگا ۔ ٭―امام شافعی :تقسیم کی جاسکتی ہے لیکن صرف اُسی وارث کو دے سکتے ہیں جس کے حصے میں حمل کے احوال میں تغیّر سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ٭―احناف و حنابلہ :ولادت سے قبل تمام ورثاء میں وراثت تقسیم کرسکتے ہیں تاکہ ورثاء کو انتظار کی زحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے ، البتہ ورثاء سے اِس بات کی ضمانت و کفالت لی جائے گی کہ بچہ کی ولادت کے بعد ورثاء کے حصص میں جو کمی بیشی واقع ہوگی