وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
ساتواں سبب:موصیٰ لہُ کا موصی کو قتل کردینا : یعنی اگر وہ شخص جس کیلئے وصیّت کی گئی ہو وہ اپنے مُوصِی کو قتل کرڈالے تو وصیّت کالعدم ہوجائے گی،اِس لئے کہ قاتِل کے لئے وصیت درست نہیں ، اور اگر زندگی میں قتل سے پہلے وصیّت کی ہو تو قتل کے بعد وہ کالعدم ہوجاتی ہے۔ہاں اگر ورثاء طیبِ خاطر کے ساتھ اجازت دے دیں تو صحیح ہے ۔(رد المحتار :6/655)آٹھواں سبب:مالِ موصیٰ بہٖ اگر معیّن ہو تو اُس کا ہلاک ہوجانا : یعنی اگر وہ مال جس کو دینے کی وصیّت کی گئی ہے اگر معیّن ہو اور ہلاک ہوجائے تو وصیّت کالعدم ہوجاتی ہے اس لئے کہ وصیّت کو پورا کرنے کا محل باقی نہ رہا ، ہاں ! اگر وہ مال غیر معیّن ہو ،مثلاً کسی نے اپناتہائی مال دینے کی وصیّت کی ہو اور کچھ مال ہلاک ہوجائے تو وصیّت ختم نہ ہوگی ، اِس لئے کہ جو مال ہلاک ہوگیا اُس کے بعد بقیہ مال کا تہائی وصیّت میں دینا ہوگا۔(الفقہ الاسلامی :10/7558)نواں سبب:مالِ موصیٰ بہٖ میں استحقاق نکل جانا: یعنی مالِ موصیٰ بہٖ میں کوئی مستحق نکل آیا اور اُس نے ملکیت کا دعویٰ کردیا تو وصیت باطل ہوجائے گی ،خواہ استحقاق مُوصِی کی موت سے پہلے نکلے یا بعد میں ، اِس لئے کہ استحقاق نکلنے سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ وصیت ایسی چیز میں کی گئی ہے جس میں موصی کی ملکیت ہی نہ تھی۔(الفقہ الاسلامی :10/7558)