وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
اگر ”للذکر مثل حظّ الانثیین“کا طائفہ ہو تو لڑکے کو لڑکی سے دوگنا دیا جاتا ہے۔ مثال: کسی مسئلہ میں مرنے والی عورت کا زوج ہو،ایک بیٹی دو بیٹے اور 5 جدّات ہوں ۔ردّ علی ذوی الفروض کے قواعد: ردّ کا لغوی اور اِصطلاحی معنی: لغت میں ”ردّ“ لوٹانے کو کہتے ہیں اوراصطلاحی تعریف یہ نقل کی گئی ہے:”صَرْفُ مَا فَضُلَ عَنْ فُرُوضِ ذَوِي الْفُرُوضِ وَلَا مُسْتَحِقَّ لَهُ مِنْ الْعَصَباتِ إِلَيْهِم بِقَدرِ حُقُوقِهِم“ ذوی الفروض کے حصے دینے کے بعد بچے ہوئے مال کو جبکہ عصبات میں سے اُن کا کوئی مستحق نہ ہو، ذوی الفروض کی طرف اُن کے حقوق کے بقدر واپس لوٹانا ردّ کہلاتا ہے ۔(التعریفات:110)ردّ کے قواعدکا محل اور اُس کااِجراء: ردّ کے قواعد کا محل ذو ی الفروض ہیں ،عصبات پر ردّ نہیں ہوتا ۔اِس لئے کہ کسی مسئلہ میں ردّ کی ضرورت تب ہی پیش آتی ہے جبکہ اُس میں ذوی الفروض کو دینے کے بعد ترکہ بچ جائے ، اور ظاہر ہے کہ یہ تب ہی ہوتا ہے جبکہ مسئلہ کے اندر عصبات میں سے کوئی نہ ہو ،کیونکہ اگر کوئی بھی عصبہ موجود ہو تو باقی ماندہ ترکہ اُسی کو دیدیا جاتا ہے۔ اِسی طرح عَولیہ مسئلہ یعنی جس مسئلہ میں ہورہا ہو اور سہام مخرج سے بڑھ رہے ہوں اُس میں بھی ردّ نہیں ہوتا ،اِس لئے کہ ردّ باقی ماندہ ترکہ کے لوٹانے کو کہا جاتا ہےجبکہ عَولیہ مسئلہ میں ترکہ باقی نہیں بچتا۔ پس خلاصہ یہ نکلا کہ ردّ کے قواعد کا محل صرف ذوی الفروض ہیں اور وہ بھی تب جبکہ مسئلہ میں عصبات نہ ہوں اور وہ مسئلہ عَولیہ بھی نہ ہو ۔