وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
کے ایک تہائی کی وصیّت کرسکتے ہو۔(طبرانی کبیر : 4129)(3)―وارِث کیلئے وصیّت نہ ہو : وارث کیلئے وصیت نہیں ہونی چاہیئے اِس لئے کہ ورثاء کا جو حق ہے وہ اُنہیں شریعت کے اعتبار سے ملتا ہے،لہٰذا اُن کیلئے وصیّت نہیں کی جاسکتی اور کسی نے کی ہو تو اس کا اِعتبار نہیں ہوتا،چنانچہ خطبہ حجۃاالوداع میں نبی کریم نے یہ اِرشاد فرمایا تھا۔”إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَدْ أَعْطَى لِكُلِّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ“ بیشک اللہ تعالیٰ نےہر صاحبِ حق کو اُس کا حق دیدیا ہے لہٰذا کسی وارث کیلئے وصیّت کا اِعتبار نہیں۔(ترمذی: 2120) ہاں !اگرورثاء دلی رضامندی کے ساتھ اجازت دیں تو تہائی مال سے زیادہ کی وصیت بھی نافذ ہوسکتی ہے اور وارث کے لئے بھی وصیت کو پورا کیا جاسکتا ہے،لیکن اس اجازت کے لئے مندرجہ ذیل چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے : (1)تمام ورثاء راضی ہوں :پس اگر بعض راضی ہوں اور بعض نہ ہوں تو صرف راضی ہونے والوں کےمال میں اُن کے حصہ کے بقدر وصیت نافذ ہوگی ۔(الدر المختار :6/656) (2)تمام ورثاء بالغ ہوں :پس اگر کچھ ورثاء نابالغ اور کچھ بالغ ہوں تو نابالغوں کی اجازت کا اعتبار نہ ہوگا ۔(الدر المختار :6/656) (3)تمام ورثاء عاقل ہوں :پس اگر کوئی وارث مجنون اور دیوانہ ہو ،یعنی ہوش و حواس سے عاری ہو تو اُس کی اجازت کا اعتبار نہیں ۔(الدر المختار :6/656) (4)دلی طور پر راضی ہوں:پس اگر صرف مروّت میں زبانی طور پر اجازت دیدی جائے تو اُس کا اعتبار نہ ہوگا ۔چنانچہ حدیث میں ہے ،نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا: