وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
(4)―دَینِ صحت اور دَینِ مرض دونوں قسم کے قرضے ہوں اور ترکہ قرض کی ادائیگی کیلئے کافی نہ ہو تو اِس صورت میں سب سے پہلے دَینِ صحت کی ادائیگی کی جائے گی اُس کے بعد اگر کچھ مال بچے تو دَینِ مَرض کی ادائیگی کی جائے گی ، اور کچھ نہ بچے تو دینِ مرض اداء نہیں جائے گا ۔(مفید الوارثین :45 ، 46، تسہیل و تلخیص از مرتب)تیسرا حق وصیت کا نفاذ : ترکہ سے متعلّق تیسرا حق یہ ہےکہ تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے اور قرضہ کی ادائیگی کے بعد اگر میّت نے کوئی وصیت کی ہو تو باقہ ماندہ مال میں اُس وصیّت کو نافذ کیا جائے گا ۔ وصیّت کے ضروری اُمور: وصیّت کے نفاذ میں مندرجہ ذیل چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے :(1)―وصیت جائز کام کی ہو: وصیّت ایسے کام کی ہو جو خلافِ شرع نہ ہو ، ورنہ اُس کو پورا کرنا درست نہیں ،اِس لئے کہ شریعت کا حکم یہ ہے:”وَالْوَصِيَّةُ بِالْمَعْصِيَّةِ بَاطِلَةٌ“ کسی باطل کام کی وصیّت باطل ہے،اُسے پورا کرنا جائز نہیں۔(ہدایہ ، باب وصیۃ الذمّی)(2)―وصیّت ثلث یا ثلث سے کم کم مال میں ہو: وصیت ترکہ کے صرف ایک تہائی مال کے اندر اندر ہونی چاہیئے،کیونکہ وصیت صرف ایک تہائی مال کے اندرنافذ ہوتی ہے،چنانچہ اِرشادِ نبوی ہے:”إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ أَعْطَاكُمْ عِنْدَ وَفَاتِكُمْ ثُلُثَ أَمْوَالِكُمْ زِيَادَةً فِي أَعْمَالِكُمْ“اللہ تعالیٰ نے تمہارے اَعمال میں اِضافہ کیلئے تمہیں اِس بات کی اِجازت دی ہے کہ تم اپنے اموال