وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
چھٹاباب:علم الفرائض کے عملی قواعد مخرج یا مسئلہ بنانے کے قواعد: قرآن و حدیث کے اندر جو حصص یا سہام بیان کیے گئے ہیں اُن کی تعداد چھ ہے: (1)نصف ۔یعنی آدھا۔(½) (4) ثلثان۔یعنی دو تہائی۔(2/3) (2) رُبع ۔یعنی چوتھائی ۔(¼) (5)ثلث۔یعنی ایک تہائی۔(⅓) (3) ثمن۔یعنی آٹھواں۔(⅛) (6) سُدس۔یعنی چھٹا۔(1/6) اِن میں سے پہلے تین کو ”نوعِ اوّل کے حصص“ کہا جاتا ہے اور آخری تین”نوعِ ثانی کے حصص“ کہلاتے ہیں،اِن میں آپس میں اوپر سے نیچے کی جانب تنصیف کی نسبت جبکہ نیچے سے اوپر کی جانب تضعیف کی نسبت بنتی ہے،جو ادنیٰ تأمّل سے سمجھی جاسکتی ہے۔پھر یہ سہام مذکورہ جب کسی مسئلہ میں آجائیں تو قواعد کے مطابق اِن کے مختلف احوال کے اعتبار سے مخرج بنایا جاتا ہے ۔ بنیادی طور پر مخرج بنانے کے سات قواعد ہیں، جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:پہلا قاعدہ: جب کسی مسئلہ میں مذکورہ سہام میں سے صرف ایک ہی سہم آجائے تو مخرج اُس کی ”سَمِی“سے بنتا ہے۔نصف کی سَمی چار،ثمن کی آٹھ،ثلثان اور ثلث کی تین اورسدس کی سَمی چھ ہے۔پس اِس قاعدہ کی رو سے چھ سہام کا مخرج درج ذیل ہے: نصف آجائے تو دو سے مخرج بنے گا۔ ثلثان آجائے تو تین سے مخرج بنے گا۔ ربع آجائے تو دو سے مخرج بنے گا۔ ثلث آجائے تو تین سے مخرج بنے گا۔