وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
اُسے پورا کیا جائےگا ۔(الفقہ الاسلامی :10/7884)(الشریفیہ:131)تیسرا اختلافی مسئلہ:حمل کی کتنی تعداد کو مقدّر مانا جائے گا : یعنی اگر وضعِ حمل سے قبل وراثت کی تقسیم کی جائے تو حمل کی تعداد کتنی مقدّر مانی جائے گی ، اِس میں اختلاف ہے : ٭―امام مالک :وراثت تقسیم نہیں کی جائے گی ، جیسا کہ ماقبل گذرا ۔ ٭―امام ابوحنیفہ :حمل کی تعداد میں چار عددبنین یا چار بنات مقدّر مانیں گے ۔ ٭―امام احمد بن حنبل :حمل کی تعداد میں دو عددبنین یا بنات مقدر مانیں گے ٭―امام شافعی :اِس میں کوئی ضابطہ نہیں ہے ، لہٰذا کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ۔ ٭―امام محمدوحسن بصری:حمل کی تعداد میں دو عدد بنین یا دو بنات مقدر مان کر تقسیم کی جائے گی ۔ ٭―امام ابویوسف :حمل کی تعداد میں ایک عدد لڑکا یا ایک عدد لڑکی کو مقدر مانا جائے گا، دونوں میں جس صورت میں بھی حمل کا زیادہ حصہ بنتا ہو ،اُسی کے مطابق وراثت تقسیم کی جائے گی۔(الفقہ الاسلامی :10/7884)(الشریفیہ :131)بارہواں مسئلہ:خنثیٰ مشکل کی میراث : خنثیٰ اُسے کہتے ہیں جس کے اندر مرد اور عورت دونوں کی علامتیں ہوں یا دونوں ہی نہ ہوں۔(الدر المختار :6/727) پھر اگر مرد ہونا راجح ہوجائے تو اُسے خنثیٰ مذکر کہا جائے گا اور اُسے مرد ہونے کے اعتبار سے وراثت ملے گی اور اگر عورت ہوناراجح ہوجائے تواُسےخنثیٰ مؤنث کہا جائےگا اور اُسے عورت ہونے کے اعتبار سے وراثت ملے گی ۔(عالمگیری :6/457)