وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
٭اگر تباین کی نسبت ہو تو ان میں سے کسی ایک کے کُل کو دوسرے عدد کے کُل میں ضرب دےکر حاصل کو لے لیا جاتا ہے۔ نسبتوں کے اعتبار سے لیےگئے اِس عدد کو ”عددِ ماخوذ“کہا جاتا ہے اور پھر اِس عددِ ماخوذ اور اگلے طائفہ کے عددِ محفوظ کے درمیان اِسی طرح نسبت دیکھتے ہوئے مزید عددِ ماخوذ کو حاصل کیا جاتا ہے،جب آخر میں کوئی طائفہ منکسرہ نہ بچے تو وہ ہی عددِ ماخوذ عددِ مضروب بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اُس حاصل ہونے والے عددِ مضروب کو مخرج اور اُس کے تمام سہام میں ضرب دےکر تصحیح قسمِ اوّل کے طریقے کے مطابق مخرج اور سہام کو بڑھالیا جاتا ہے اور پھر فی کس کے حصہ کی تعیین کرلی جاتی ہے۔ گویا آسانی کیلئے اِس سارے عمل کو مندرجہ ذیل چارحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: (1)―عددِ محفوظ کی تعیین :یعنی تصحیح قسمِ اوّل کے طریقے کے مطابق سب سے پہلے ہر ہر طائفہ منکسرہ کے سہام اور عددِ روؤس کے درمیان نسبت دیکھتے ہوئے عددِ محفوظ لیا جاتاہے۔ (2)―عددِ مأخوذ کی تعیین : طوائفِ منکسرہ کے اعدادِ محفوظہ کے درمیان نسبت کو دیکھتے ہوئے عددِ مضروب کو حاصل کیا جاتا ہے۔ (3)―ضرب کا عمل :تصحیح قسمِ اوّل کے طریقے کے مطابق اُس عددِ مضروب سے مخرج اور اُس کے تمام سہام کو ضرب دیدیتے ہیں ۔ (4)―فی کس حصہ کا اِستخراج : تصحیح قسمِ اوّل کے طریقے کے مطابق طوائفِ منکسرہ کے سہام کو اُن کے عددِ رؤوس پر تقسیم کرلیتے ہیں جس سے فی کس نکل آتا ہے،اور