وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
اولاد کے درمیان مساوات اور برابری کی جاتی ہے لڑکوں کو دوگنا نہیں دیا جاتا۔ پھر مورِث کا مرنا خواہ حقیقۃ ً ہو یا حکماً یا تقدیراً ۔ ●حقیقۃ ً : اِس کی مثال واضح ہے کہ کوئی شخص حقیقی طور پر مرجائے ۔ ●حکماً : اِس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص مفقود یعنی گم ہوجائے ، کیونکہ اس صورت میں شرعاً اُس پر حکمی طور پر میت کا حکم لگ جاتا ہے اور اُس کے مال کو اُس کے ورثاء میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ ●تقدیراً: جَنین یعنی عورت کے پیٹ میں موجود بچے کو ظلماً ماردینے والے پر غُرّۃ لازم ہوتا ہے اور وہ غُرّۃ اُس جَنین کے ورثاء پرتقسیم ہوتا ہے،گویا کہ جَنین جس کی ابھی حیات اور وجود بھی مکمل نہیں ہوا تھا لیکن اُس کی موت تقدیراً مان لی گئی ہے۔(2)وارث کا ہونا : یعنی مورِث کی موت کے وقت ورثاء کا زندہ ہونا ،اِس لئے کہ جو وارِث اپنے مورِث سے پہلے ہی مرجائے تو وہ اُس کی وراثت میں حصہ دار نہیں ہوتا، جیسے والد کے انتقال سے پہلے ہی کسی بیٹے کا انتقال ہوجائے تو والد کی وراثت میں اُس کا حصہ نہیں ہوتا۔ پھر وارِث کا وجود خواہ حقیقۃً ہو یا تقدیراً ۔ ●حقیقۃً :اِس کی مثال تو واضح ہے کہ کوئی وارِث حقیقی طور پر موجود ہو ۔ ●تقدیراً:جیسے حَمل کا وجود ، کیونکہ شریعت نے اُس کے وجود کا بھی تقدیراً اعتبار کیا ہے ، پس وہ بھی وارث ہوگا ، مثلاً کسی کے انتقال پر اُس کی بیوی کے پیٹ میں حمل ہو تو بیوی بھی وارث ہوگی اور وہ بچہ بھی وارث ہوگا،اگرچہ وہ بچہ ابھی فی الحال موجود اور زندہ نہیں ہے لیکن تقدیری طور پر اُس بچہ کو زندہ ماناگیا ہے ۔