وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
واپس لوٹادیا۔(سنن بیہقی :21398)کیا وصیت میں بلوغ کی شرط ہے ؟ یعنی وصیت کرنے والے کیلئے بالغ ہونا شرط ہے یا نہیں ، اِس کی تفصیل یہ ہے: اِس پر سب کا اتفاق ہے کہ صبیِ غیر ممیّز کی وصیت معتبر نہیں ، البتہ کیا اُس کا بالغ ہونا شرط ہے یا نہیں ، اِس میں اختلاف ہے : ٭―حضرات مالکیہ اور حنابلہ:وصیت کرنے والے کیلئے بلوغ شرط نہیں ، ممیّز ہونا شرط ہے ، جو عموماً دس سال کی عمر میں ہوتا ہے ۔ ٭―حضرات احناف و شوافع :وصیت کرنے والے کیلئے بالغ ہونا شرط ہے ، پس کسی نابالغ کی وصیت شرعاً معتبر اور درست نہ ہوگی ۔(الفقہ الاسلامی :10/7459)کیا قاتِل کے لئے وصیت ہوسکتی ہے ؟ یعنی کوئی شخص خود اپنے قتل کرنے والے کیلئے وصیت کرے تو یہ درست ہے یا نہیں ، اِس کی تفصیل یہ ہےکہ اِس کی ابتداءً دو صورتیں ہیں : (1) ضربِ قتل لگنے سے پہلےزندگی میں ہی وصیت کی ہو ۔ (2)ضربِ قتل لگنے کے بعد مرنے سے قبل وصیت کی ہو ۔ ٭احناف :دونوں صورتوں میں قاتل کیلئے وصیت درست نہیں ، اِس لئے کہ اُس نے ایک ایسی چیز میں عُجلت اور جلد بازی سے کام لیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مؤخر کیا تھا ، پس وہ وصیت سے بھی ایسے ہی محروم ہوجائےگا جیسے میراث سے محروم ہے ۔ ٭ائمہ ثلاثہ :دونوں صورتوں میں وصیت نافذ العمل ہوجائے گی ۔