وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
میراث دی گئی تھی ، بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا ۔(تحفۃ الالمعی:5/440) (4)نیز اس کو اُس جدّہ کی خصوصیت بھی کہاجاسکتا ہے ،یعنی ممکن ہے کہ آپﷺ نے بطورِ خاص صرف اُسی جدّہ کیلئے ضابطہ سے ہٹ کر یہ حکم لاگو کیا ہو ، ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں اُس پر دوسروں کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔آٹھواں مسئلہ:ذوی الارحام کی میراث: ذوی الاَرحام سے متعلّق فقہی اختلاف کی وضاحت سے قبل اس کی تعریف ملاحظہ کیجئے:ذوی الارحام کی تعریف : ”كُلُّ قَرِيبٍ لَيْسَ بِذِي سَهْمٍ وَلَا عَصَبَةٍ وَهُمْ كَالْعَصَبَاتِ مَنْ اِنْفَرَدَ مِنْهُمْ أَخَذَ جَمِيعَ الْمَالِ“ ذوی الارحام ہر اُس رشتہ دار کو کہتے ہیں جس کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو اور وہ عصبہ بھی نہ ہو ، لیکن عصبات کی طرح اکیلے ہونے کی صورت میں جمیع مال کا مستحق قرار پائے ۔(عالمگیری :6/458)ذوی الارحام کے وارث ہونے میں اختلاف : ذوی الاَرحام کے وارث ہونے کے بارے میں ائمہ کرام کا اختلاف ہے : ٭―امام ابوحنیفہ و احمد :ذوی الارحام بھی وارث ہیں ، پس ذوی الفروض اور عصبہ نہ ہونے کی صورت میں ذوی الارحام وارث ہوں گے ۔ ٭―امام مالک و شافعی :ذوی الارحام وارث نہیں ، پس ذوی الفروض اور عصبہ نہ ہونے کی صورت میں مال سارا بیت المال میں داخل کیا جائے گا ۔(مرقاۃ:5/2022) نوٹ:متاخرین فقہاءِ مالکیہ و شوافع بھی احناف اور حنابلہ کے مسلک کے