وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
ہے کہ میت کے شرعی وارث کتنے کون کون ہیں اور اُن کا میت کی وراثت میں کتنا حق بنتا ہے ۔(کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم:1/42)علم الفرائض کی غرض و غایہ : جس مقصد کیلئے کوئی علم و فن سیکھا اور پڑھا جائے وہ مقصد اُس علم و فن کی غرض و غایہ کہلاتا ہے۔علم الفرائض کے سیکھنے اور پڑھنے کا مقصد یہ ہے”إيصَالُ الْحُقُوقِ لِأَرْبَابِهَا “یعنی ہر وارث کو اُس کا شرعی حق پہنچادیا جائے ۔(شامیہ :6/758)علم الفرائض کے ارکان : اَرکان رکن کی جمع ہے،ستون کو کہتے ہیں ، اور اِس سے مراد وہ چیزیں ہوتی ہیں جن پر کسی چیز کے وجود کا مدار ہوتا ہے۔علم الفرائض کے تین ارکان ہیں : (1)وارث : وہ رشتہ دار جو مرنے والے کے مال کے شرعی حق دار ہوتے ہیں ۔ (2)مُورَث :وہ مرنے والا جس کے مال کو پسماندگان میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ (3)مَورُوث :وہ مال جس کو تقسیم کیاجاتا ہے ۔(شامیہ :6/758)علم الفرائض کی شرائط : علم الفرائض کی تین شرطیں ہیں : (1)مورِث کا مرنا۔ (2)وارِث کا ہونا۔(3)سببِ وراثت کا علم ہونا۔(1)مورِث کا مرنا : یعنی جس کی وراثت تقسیم کی جارہی ہے اُس کا مرنا، اِس لئے کہ زندہ شخص کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی اور اِس سے یہ معلوم ہوگیا کہ زندگی میں جو اپنے مال کو ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہےوہ وراثت نہیں ہوتی بلکہ ھبہ اور ہدیہ کہلاتاہے،لہٰذا اُس میں