وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
پھر احناف کے درمیان اِس میں اختلاف ہے کہ اگر ورثاء خود دلی رضامندی کے ساتھ اجازت دیں تو قاتل کےلئے وصیت نافذ ہوگی یا نہیں : ٭امام ابویوسف:ورثاء اگر اجازت دیں تب بھی جائز نہیں ، اِس لئے کہ جو مانع ہے یعنی قتل کی جنایت وہ ورثاء کی اِجازت کے باوجود باقی ہے ۔ ٭حضرات طرفَین:ورثاء اگر بطیبِ خاطر اور دلی رضامندی کے ساتھ اِجازت دیدیں تو قاتل کیلئے وصیت کو نافذ کرنا جائز ہے ، اِس لئے کہ نفاذ سے روکنے والی چیز ورثاء کا حق تھا جس کو اُنہوں نے خود اِجازت دیکر ختم کردیا ہے ۔(البنایۃ :13/397)وارث کیلئے وصیت کرنا : وارث کیلئے وصیت کی جاسکتی ہے یا نہیں ، اِس میں اختلاف ہے : زیدیہ ، امامیہ،اوراسماعیلیہ:وارث کیلئے وصیت جائز ہے ،اِس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ﴾ ۔(البقرۃ :180) آیتِ مذکورہ میں والدین اور قریبی رشتہ داروں کیلئے وصیّت کو لازم کیا گیا ہے ، اور اگرچہ اب وصیّت کا واجب ہوناتومنسوخ ہوچکا ہے ،تاہم اُس کے وجوب کے منسوخ ہونے سے جواز کا منسوخ ہونا لازم نہیں آتا ، لہٰذا ورثاء کے لئے وصیت جائز ہے ۔ جمہور اہلِ سنت و الجماعت :وارث کے لئے وصیت جائز نہیں ۔ جیسا کہ حدیث میں صراحۃً اِس کی مُمانعت کی گئی ہے:”لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ “وارِث کیلئے وصیت نہیں ۔ پھر جمہور کے درمیان اِس میں اختلاف ہے کہ کیا ورثاء کی اجازت سے وارث کے لئے وصیت نافذ ہوسکتی ہے یا نہیں :