وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
کالعدم ہوجائے گی ، ہاں! اگر ورثاء دلی رضامندی کے ساتھ اِجازت دیں تو تہائی سے زائد مال میں بھی وصیت کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔(مفید الوارثین :60)(10)مُوصِی راضی اور مختار ہو ۔ یعنی وصیت کرنے والا اپنے قصد و اِرادے اور دِلی رضامندی کے ساتھ وصیّت کرے، اِس لئے کہ وصیّت در اصل”اِیجابِ مالک“یعنی اپنی ملکیت کو کسی کیلئے ثابت کرنا ہے اور اِس کیلئے طِیبِ خاطر اور دِلی رضامندی شرط ہوتی ہے،چنانچہ ہازل،مُکرَہ اور مُخطی کی وصیت معتبر نہ ہوگی ، یعنی مذاق میں وصیّت کرنے یا کسی کے زورو زبردستی اور جبر و اِکراہ سے وصیّت کردینےیا غلطی سے وصیت کے الفاظ کے نکل جانے سے وصیّت کا اعتبار نہ ہوگا۔(الفقہ الاسلامی :10/7461)وصیت کی اہمیت و فضیلت : وصیّت کی اہمیت و فضیلت پر مشتمل چند احادیثِ طیّبہ مندرجہ ذیل ہیں: حضرت جابر بن عبد اللہنبی کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”مَنْ مَاتَ عَلَى وَصِيَّةٍ مَاتَ عَلَى سَبِيلٍ وَسُنَّةٍ، وَمَاتَ عَلَى تُقًى وَشَهَادَةٍ، وَمَاتَ مَغْفُورًا لَهُ“ جو شخص وصیت کر کےدنیا سے جائے وہ راہِ ہدایت اور سنت کے موافق اور پرہیز گاری و شہادت کے ساتھ مرتا ہےاور اس حالت میں مرتا ہےکہ(اللہ کی جانب سے) اُس کی بخشش ہوچکی ہوتی ہے۔(ابن ماجہ : 2701) ایک اور حدیث میں ہے،اللہ کے رسول ﷺنے اِرشاد فرمایا:”مَنْ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ فَأَوْصَى فَكَانَتْ وَصِيَّتُهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ كَانَتْ كَفَّارَةً لِمَا تَرَكَ مِنْ زَكَاتِهِ فِي حَيَاتِهِ“ جس کی وفات کا وقت قریب ہو اور اُس نے کتاب