وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
مسلمان اور مُرتَد کے درمیان وراثت: مُرتَد مسلمان کا وارث نہیں ہوتا،یہ تو اجماعی مسئلہ ہے ۔البتہ مسلمان کسی مُرتد کا وارِث ہوتا ہے یا نہیں اِس میں تفصیل یہ ہے کہ صرف اِرتداد سے قبل کمائے گئے مال میں وارِث ہوگا اور اِرتداد کے بعد کمائے مال میں نہیں۔یعنی اُس مرتد شخص نے مرتد ہونے سے پہلےاِسلام کی حالت میں جو مال کمایا ہو اُس میں مسلمان وارِث ہوگا اور جو مرتدہونے کے بعد مال کمایا ہو اُس میں مسلمان وارِث نہیں ہوگا ،بلکہ اُس مال کی حیثیت ”مالِ فَی“ کی ہوگی چنانچہ وہ بیت المال میں داخل کردیا جائےگا۔(الشریفیہ :14)(4)―چوتھا اختلافِ دارَین: یعنی دو کافروں کے درمیان دار الاسلام اور دار الحرب کا فرق ہو یا دو کافروں کے درمیان مختلف دار الحرب کا فرق ہو تو وراثت جاری نہیں ہوتی ،لیکن یہ مانع کفار کے اعتبار سے ہے مسلمانوں کے لئے نہیں ، پس مسلمان دو مختلف دار میں بھی ہوں تو ایک دوسرے کے وارث ہوں گے ۔اختلافِ دار کی صورتیں : (1)حقیقۃ ً اختلاف : (جیسے حربی اور ذمّی) کیونکہ حربی دار الحرب میں اور ذمّی دار الاسلام میں ہوتا ہے ،پس گویا دونوں کے درمیان حقیقی طور پر دار کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ (2)حکماً اختلاف : (جیسے مستامن اور ذمّی)۔ اِس لئے کہ دونوں ہی دا ر الاسلام میں ہیں لیکن مُستامن عارضی طور پر ہے جبکہ ذمّی مستقل طور پر ، پس گویا دونوں ایک دار میں ہونے کے باوجود بھی حکمی طور پر دار کا