وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
(8) ورثاء اگر پہلے سے غنی یعنی مالدار ہیں یا ترکہ اِتنا زیادہ ہے کہ وہ ترکہ ملنے کے بعد غنی ہوجائیں گے تو بہتر ہے کہ کسی دینی مصرف میں اپنے مال کے ایک ثلث سے کم کم میں وصیت کردی جائے تاکہ مرنے کے بعد صدقہ جاریہ کی شکل قائم ہوجائے۔ (9)اپنے رشتہ داروں میں کوئی ایسا رشتہ دار جو شرعی طور پر وراثت کا مستحق نہ ہو تو اُس کیلئے ایک تہائی سے کم کم مال کی وصیت کرنا تاکہ اُسے بھی ترکہ میں کچھ مل جائے یہ بھی بہتر ہے ، بالخصوص جبکہ وہ مستحق بھی ہو ۔جیسے دادا کی وراثت میں یتیم پوتے کا شرعی حق نہیں ہے جبکہ دادا کے بیٹے یعنی اُس پوتے کے چچا موجود ہوں ،تو ایسی صورت میں دادا کو اپنے اُس یتیم پوتے کیلئے وصیّت کردینی چاہیئے ۔ (10)کسی غیر وارث کے لئے ایک تہائی مال تک کی وصیّت کرنا جائز ہوتا ہے لیکن فقہاء نے لکھا ہے کہ ایک تہائی مال سے کچھ کم مال کی وصیّت کرنی چاہیئے کیونکہ حدیث میں آپﷺنے تہائی مال کی وصیّت کی اِجازت دیتے ہوئے بھی اُسے کثیر قرار دیا ہے ،لہٰذا اُس سے کچھ کم ہی کی وصیّت کرنی چاہیئے ۔(3)جائز وصیّت: جائز وصیّت اُسے کہتے ہیں جس کا کرنا یا نہ کرنا ضروری اور لازم نہ ہو اور اُسے بہتر بھی قرار نہ دیا گیا ہو ۔مثلاً: کوئی وارث نہ ہو تو اپنے تمام مال کی وصیت کردینا ، اپنے تجہیز تکفین کے لئے ایسے تمام کاموں کی وصیت کرنا جو شرعاً ممنوع اور مکروہ نہ ہوں ، مثلاً :یہ وصیت کرنا کہ فلاں جگہ دفن کرنا،یا فلاں شخص سے نماز جنازہ پڑھوانا وغیرہ ۔