وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
ردّ کے قواعد: ردّ کے قواعد کو سمجھنے سے پہلےیہ سمجھئے کہ ردّیہ مسئلہ کے اعتبار سے ذوی الفروض کی دو قسمیں ہیں : (1)مَنْ یُّرَدُّعَلَیہ۔ (2)مَنْ لا یُّرَدُّعَلَیہ۔ مَنْ یُّرَدُّعَلَیہ:اُن ورثاء کو کہاجاتا ہے جن کو ایک دفعہ حصہ دینے کے بعد باقی ماندہ ترکہ بھی دوبارہ لوٹا یا جاتا ہے اور یہ زوجین کے علاوہ بقیہ دس ذوی الفروض ہیں ۔ مَنْ لا یُّرَدُّعَلَیہ: اُن ورثاء کو کہاجاتا ہے جن کو ایک دفعہ حصہ دینے کے بعد باقی ماندہ ترکہ دوبارہ نہیں دیا جاتا اور یہ زوج اور زوجہ ہیں ۔ردّ کا پہلا قاعدہ: اگر کسی مسئلہ میں صرف ”من یُردّ علیہ“ ہوں اور ”من لا یُردّعلیہ“ یعنی زوجین نہ ہوں اور ورثاء ایک ہی جنس کے ہوں تو مخرج اُن کے عددِ رؤوس کے مجموعہ سے بنے گا ۔ مثال:جیسے کسی مسئلہ میں تین بنات آجائیں توضابطہ کے مطابق ثلثان ملنے کی وجہ سے تین سے مخرج بنے گا لیکن ایک بچ جانے کی وجہ سے ردّ کا مذکورہ قاعدہ جاری کیا جائے گا اور ایک جنس کے ورثاء ہونے کی وجہ سے عددِ رؤس یعنی تین سے مخرج بنے گا ،اِسی طرح اگر پانچ اختِ حقیقی آجائیں تو پانچ سے مخرج بنےگا ۔ردّ کا دوسرا قاعدہ: اگر کسی مسئلہ میں صرف ”من یُردّ علیہ“ ہوں اور ”من لا یُردّعلیہ“نہ ہوں اور ورثاء مختلف جنس کے ہوں تو مخرج اُن کے حاصل شدہ سہام کے مجموعہ سے بنے گا ۔