وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
اور اگر کوئی پہلو واضح اور راجح نہ ہو تو اُسے”خنثیٰ مشکل“ کہتے ہیں، اور اس کو وراثت کس اعتبار سے ملے گی ، اِس میں ائمہ کا اختلاف ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے :خنثیٰ مُشکل کی وراثت اور اُس کی صورتیں: وراثت کے اعتبار سے خنثیٰ مشکل کی بنیادی طور پر تین صورتیں بنتی ہیں : (1)عدمِ تفارق:یعنی خنثیٰ کو مرد یا عورت ماننے کی صورت میں ترکہ کے حصہ میں کوئی فرق نہ ہو،اور دونوں ہی صورتوں میں یکساں حصہ ملے ۔ (2)وجدان و حرمان کا فرق :یعنی خنثیٰ کو مرد یا عورت ماننے کے اعتبار سےمحروم اور وارث ہونے کا فرق ہو، یعنی ایک صورت میں وارث اور دوسری میں وارِث نہ ہو ۔ (3)اقل اکثر کا فرق:یعنی خنثیٰ کو مرد یا عورت ماننے کے اعتبار سےکم یا زیادہ حصہ ملنے کا فرق ہو ، یعنی ایک صورت میں کم اور دوسری صورت میں زیادہ حصہ ملتا ہو ۔پہلی صورت:جبکہ مردیاعورت کا اعتبار کرنے میں کوئی فرق نہ ہو : یعنی خنثیٰ کو خواہ مرد تصوّر کریں یا عورت،دونوں ہی صورتوں میں یکساں وراثت ملتی ہو اِس صورت میں بغیر کسی اشکال کے بالاتفاق ترکہ تقسیم کردیں گے ، کیونکہ دونوں صورتوں میں ترکہ کے حصہ میں کوئی فرق نہیں ہے ۔دوسری صورت:جبکہ وجدان و حرمان کا فرق ہو : یعنی خنثیٰ کو مرد یا عورت میں سے کسی ایک کے تصوّر کرنے سے وراثت ملتی ہو اور دوسری صورت میں نہ ملتی ہو ، اِس کو وجدان و حرمان کا فرق کہا جاتا ہے، اِس صورت میں اُس کی وراثت کا کیا حکم ہے ،اِس بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے: