وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
خلاصہ: اِمام مالک:کفار کے درمیان اختلافِ دین کی صورت میں وراثت جاری نہ ہوگی ، ہاں جبکہ اُن کا دین متحد ہو تو وراثت جاری ہوجائےگی۔ ائمہ ثلاثہ:کفار کے درمیان خواہ دین کا اختلاف ہو یا اتحاد ،بہرصورت اُن کے درمیان وراثت کا اِجراء ہوجائے گا۔ لأنّ الکُفرَ ملّۃٌ واحِدَۃٌ۔ علّامہ ابن أبی لیلیٰ :دین کے متحد ہونے کی صورت میں تو وراثت تقسیم ہوگی لیکن دین کے مختلف ہونے کی صورت میں وراثت اُس وقت جاری ہوگی جبکہ مجوسی اور یہود و نصاری کا اختلاف نہ ہو ، گویا یہودو نصاریٰ کے درمیان اختلاف ِ دین کی صورت میں بھی وراثت جاری ہوگی لیکن مجوسی اور یہودی یا مجوسی اور نصاریٰ کے درمیان وراثت کا اِجراء نہ ہوگا۔(الفقہ الاسلامی و ادلتہ :10/7719)پانچواں مسئلہ:میّت کے کون سے دُیون اداء کرنا واجب ہے ؟ اِس پر سب کا اتفاق ہے کہ حقوق العِباد سے متعلّق قرضے خواہ دَینِ صحت ہوں یا دَینِ مرض ، دونوں کی ادائیگی کرنا لازم ہے ، اور ورثاء میت کے ترکہ سے اداء کرنے کے پابند ہیں ، البتہ حقوق اللہ سے متعلّق دُیون جیسے نماز و روزے کے فدیے، زکوۃ ، کفارہ اور نذور وغیرہ کی ذمّہ داریاں جوکہ باقی رہ گئی ہوں ، ان کے بارے میں اختلاف ہے کہ ان کا اداء کرنا ورثاء کے ذمّہ لازم ہے یا نہیں : ٭―احناف : اگرمیّت نے وصیت کی ہو تو تہائی مال سے اداء کرنا ضروری ہے ،