وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
٭―امام مالکو اہلِ ظاہر:ورثاء کی اجازت سے بھی یہ وصیت نافذ نہیں ہوسکتی ، ہاں اگر ورثاء اپنی جانب سے وہ مال دینا چاہیں تو یہ اُن کی جانب سے عطیہ دینا کہلائے گا ، موصی کی جانب سے وصیت نہ ہوگی ۔ ٭―ائمہ ثلاثہ :ورثاء کی اجازت سے درست ہے اور یہ موصی کی ہی جانب سے دینا کہلائے گا ۔(الفقہ الاسلامی :10/7476 ۔ 7477 ۔ 7478)تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرنا: اِس پر سب کااتفاق ہے کہ تہائی مال سے زیادہ کی وصیت باطل ہے ، البتہ کیا ورثاء کی اجازت سے یہ وصیت نافذ ہوسکتی ہے یا نہیں، اِس میں اختلاف ہے : ٭―امام مالک :ورثاء اجازت بھی دیں تو نافذ نہیں ہوسکتی ۔ہاں کوئی وارث اپنی جانب سے دینا چاہے تودے سکتا ہے اور یہ اُسی کی جانب سے دینا کہلائے گا ، میت کی طرف سے وصیت کا نفاذ نہ ہوگا ۔ ٭―ائمہ ثلاثہ :ورثاء کی اجازت سے جائز ہے ۔ پھر ائمہ ثلاثہ کے درمیان اختلاف ہے کہ میت کا اگر کوئی وارث ہی نہ ہو تو تہائی سے زائد میں وصیت نافذ ہوگی یا نہیں : ٭―احناف :نافذ ہوگی ، اِس لئے کہ تہائی سے زائد میں وصیّت کو نافذ کرنے سے کوئی مانع نہیں ،لہٰذا وصیت کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ ٭―شوافع وحنابلہ :نافذ نہیں ہوگی ، اِس لئے کہ تہائی سے زائد میں وصیت کے نافذ ہونے کیلئے کسی مُجیز ( یعنی اجازت دینے والے )کا ہونا ضروری ہے ، اور وہ ہے نہیں ، اِس لئے تہائی سے زائد میں وصیت نافذ نہ ہوگی ۔(الفقہ الاسلامی :10/7488)