وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
تعلق ہونے کی وجہ سے اسے نصفِ علم کہا گیا ہے ۔ (الشریفیۃ:2)(مرقاۃ :5/2034) (4)―نصف کے معنی ”أَحَدُ الْقِسْمَيْنِ “یعنی دو قسموں میں سے ایک قسم کے ہیں ، اگرچہ وہ دونوں برابر نہ ہوں ، پس ایک وراثت کا علم ہوا اور دوسرا واجباتِ شرعیہ کا ۔ اِس طرح سے یہ نصفِ علم ہے ۔(فتح الباری :12/5) (5)―دیگر تمام علوم نصوص اور قیاس دونوں سے حاصل کیے جاتے ہیں ، جبکہ علم الفرائض صرف نصوص سے ہی حاصل ہوتا ہے ، پس اِس اعتبار سے یہ نصفِ علم یعنی علم کا ایک حصہ ہوا۔(فتح الباری :12/5) (6)― اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ علم کو نصف کیوں کہا گیا ہے، کیونکہ اِس بارے میں احادیثِ طیّبہ میں وضاحت نہیں کی گئی کہ نصف کیسے ہے ،لہٰذا ہم بھی اپنی جانب سے اِس بارے میں کوئی حتمی اور قطعی رائے پیش نہیں کرسکتے۔(شامیہ :6758)وراثت کے اسباب : وہ اسباب جن کی وجہ سے کسی کو وراثت ملتی ہے وہ تین ہیں : (1)قرابت۔ (2)زوجیت ۔ (3)وَلاء۔قرابت :پہلا سبب قرابت یعنی رشتہ داری ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ میت سے کسی قسم کی رشتہ داری ہونا جیسے بھائی بہن بیٹا وغیرہ ۔اس سبب کو قرابتِ نسبیہ کہا جاتا ہے ۔نکاح :دوسرا سبب زوجیت اور نکاح کا ہونا ہے،یعنی میّت کے ساتھ نکاح کی وجہ سے رشتہ قائم ہونا ، جیسے زوج یا زوجہ ہونا ۔اس کو قرابتِ سببیہ کہا جاتا ہے ۔وَلاء :تیسرا سبب وَلاء کا تعلّق ہے ،اور وَلاء اُس حق کو کہتے ہیں جو غلام کو آزاد کرنے کی