وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
اب اِس اختلاف کو سامنے رکھتے ہوئے مسئلہ مذکورہ کی مثال ملاحظہ فرمائیں: کسی مسئلہ میں زوجہ،دو حقیقی بہنیں،دو خیفی بہنیں،ماں اور قاتل بیٹا موجودہوں تو حضرت عبد اللہ بن مسعودکے مسلک کے مطابق قاتل بیٹا چونکہ حاجب نقصان بنتا ہےاِس لئے زوجہ کا حصہ ثمن ہوگا ،لہٰذا چوبیس سے مسئلہ بن کر 31 عَول آئے گا ۔ جبکہ جمہور کے مسلک کے مطابق قاتل بیٹا مطلقاً حاجب نہیں بنتا ،نہ حاجبِ حرمان اور نہ حاجبِ نقصان،اِس لئے زوجہ کا حصہ ربع ہی رہے گا ،کم ہوکر ثمن نہیں ہوگا،لہٰذا مخرج چوبیس سے بنے گا ہی نہیں ،بلکہ 12 سے بن کر 17 عَول آئے گا ۔اَعداد کے درمیان نسبت کے قواعد: دو عددوں کے درمیان چار طرح کی نسبت مُمکن ہے: (1)تماثل۔ (2)تداخل۔ (3)توافق۔ (4)تباین۔تماثل: دو عدد جبکہ ایک دوسرے کے ہم جنس یعنی ایک جیسے ہوں آپس میں ”مُتماثلین“ کہلاتے ہیں اور اُن کے درمیان ”تَماثل“ کی نسبت ہوتی ہے، جیسے 4،4 اور 5،5۔تداخل: دومختلف عدد جبکہ اُن میں سے چھوٹا عدد بڑے عدد تک ایک مرتبہ میں یا کئی مرتبہ میں پورا پورا پہنچ جائے ،آپس میں ”متداخلین“کہلاتے ہیں اور اُن کے درمیان ”تداخل“ کی نسبت ہوتی ہے۔جیسے 16 اور 32 کے درمیان تداخل کی نسبت ہے کیونکہ 16 کا عدد دو مرتبہ میں 32 تک پہنچ رہا ہے،اِسی طرح 8 اور 64 کے درمیان تداخل کی نسبت ہے کیونکہ 8 کا عدد آٹھ مرتبہ میں 64تک پہنچ رہا ہے۔