وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
ورنہ لازم نہیں ،ہاں! اگر بطیبِ خاطر ورثاء اداء کرنا چاہیں یا تہائی مال سے زیادہ میں وصیّت کو نافذ کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں ۔ ٭―ائمہ ثلاثہ :ورثاء کے ذمّہ میّت کے وہ دُیون جو حقوق اللہ سے متعلّق ہیں اُن کا اداء کرنا بھی لازم ہے،اگرچہ میّت نے وصیت نہ کی ہو ۔(الفقہ الاسلامی :10/7731)چھٹا مسئلہ: مقاسمۃ الجد: کسی مسئلہ میں دادا اور بھائی بہن جمع ہوجائیں تو میراث کیسے تقسیم ہوگی ؟ اِس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ جدّ کے ساتھ خیفی بھائی بہن جمع ہوجائیں تو وہ جدّ کی وجہ سے محجوب ہوجاتے ہیں ، اور والد کی طرح دادا بھی اُن کو ساقط کردیتا ہے،البتہ اگر جدّ کے ساتھ حقیقی یا علّاتی بھائی بہن جمع ہوجائیں تو وہ محجوب ہوتے ہیں یا وارث ، اِس میں ائمّہ کرام کا اختلاف ہے : ٭امام ابوحنیفہ :حقیقی اور علّاتی بھائی بہن جدّ کی وجہ سے محجوب ہوجائیں گے ۔ ٭ائمہ ثلاثہ و صاحبین :محجوب نہیں ہونگے بلکہ جدّ کے ساتھ وارث ہوں گے ۔ پھر اِس کا طریقہ کار کیا ہوگا ، اِس میں حضرات صحابہ کرام کے تین قول ہیں : ایک حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کا قول ہے،دوسرا حضرت عبد اللہ بن مسعود کا اورتیسرا حضرت زید بن ثابت کا قول ہے ۔ائمہ ثلاثہ اور صاحبین کا عَمل چونکہ حضرت زید بن ثابت کے قول پر ہے ، اِس لئے ذیل میں صرف اُسی کی تفصیل ذکر کی جارہی ہے، اور اُس کا خلاصہ یہ ہے :