وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
(2)―ذوی الفروض کا حصہ نکالنے کے بعد کُل ترکہ کاسدس بچے گا ۔ (3)―ذوی الفروض کا حصہ نکالنے کے بعد کُل ترکہ کاسدس سے کم بچے گا ۔ (4)―ذوی الفروض کا حصہ نکالنے کے بعد کُل ترکہ کاکچھ بھی نہیں بچے گا ۔ اِن چاروں صورتوں کا حکم بالترتیب مندرجہ ذیل ہے: ●اگر سدس سے زیادہ بچے تو جدّ کو مقاسمہ،ثلث الباقی اور سدس جمیع المال میں سے جو افضل صورت ہو اُس کے مطابق حصہ دیا جائے گا ۔ ●اگر سدس بچے تو جدّ کو سدس دیا جائے گا اور حقیقی یا علّاتی بھائی بہن محروم ہوں گے ۔ ●اگر سدس سے کم بچے تو جد کو سدس دیکرمخرج میں عولاً اضافہ کیا جائے گا ، بھائی بہن محروم ہوں گے ،اُنہیں کچھ نہ ملےگا۔ ●اگر کچھ بھی نہ بچے تو اِس صورت میں بھی جدّ کو سدس دیکر مخرج کو عولاً بڑھایا جائے گا اور بھائی بہن محروم ہوجائیں گے ۔(الفقہ الاسلامی :10/ 7758)(تسہیل الفرائض :113)ساتواں مسئلہ:باپ کی موجودگی میں جدّہ کی میراث : باپ کے ہوتے ہوئے جدّہ وارث ہوتی ہے یا نہیں ، اِس میں اختلاف ہے : حضرت عمر،حضرت عبد اللہ بن مسعود،حضرت ابو موسیٰ اشعری ،حضرت حسن بصری اور حضرت محمد بن سیرین کے نزدیک جدّہ وارث ہوتی ہے ۔ جمہور فقہاء کرام اور ائمہ اربعہ کے نزدیک باپ کے ہوتے ہوئے جدّہ وارث نہیں ہوتی، اور اِسی پر فتویٰ اور عمل ہے ۔(تحفۃ الاحوذی :6/ 234) جدّہ کے احوال میں یہ بات گزرچکی ہے کہ جدّہ خواہ اَبویہ ہو یا اُمویہ ،ماں کی موجودگی میں دونوں ساقط ہوجاتی ہیں اور باپ سے صرف اَبویہ ساقط ہوتی ہیں ۔ پس اِس اصول