وراثت و وصیت کے شرعی احکام |
|
سراجی کے حاشیہ میں اس کی تعریف یہ بھی نقل کی گئی ہے:”أَخْذُ السِّهَامِ مِنْ اَقَلِّ عَدَدٍ يُمْكِنُ عَلَي وَجْهٍ لَا يَقَعُ فِيْهِ الْكَسْرُ عَلَي اَحَدِ الْمُسْتَحِقِّيْن“ حصص کو اُس ایسے چھوٹے عدد سےحاصل کرنا جس میں یہ ممکن ہو کہ اُس( سے حصص کے لینے) میں مستحقین کے حصوں میں کسر واقع نہ ہو ۔(ہامش السراجی ) یعنی حصص کی ادائیگی کیلئے ایسا چھوٹا عدد حاصل کرنا جس سے ہر وارِث کا حصّہ بغیر کسی کسر کے صحیح طور پر نکل آئے ۔عملِ تصحیح کا تعارف اور اُس کی ضرورت: تصحیح کا عمل ہر مسئلہ میں نہیں کیا جاتا ،بلکہ اِس کی ضرورت تب پڑتی ہے جبکہ کسی مسئلہ میں سہام اور عددِ رؤوس کے درمیان کسر واقع ہورہی ہو ، اور کسر کا پتہ اِس طرح چلتا ہے کہ حاصل شدہ سہام ورثاء کی اُس جماعت کے عددِ رؤوس پر پورے پورے تقسیم نہ ہوتے ہوں۔جیسے کسی مسئلہ میں تین بیویوں کومشترکہ طور پر4سہام حاصل ہورہے ہوں تو ظاہر ہے کہ وہ چار سہام تین بیویوں میں پورے پورے تقسیم نہیں ہوں گےبلکہ اُن کے اندرکسر کرنی پڑے گی،لہٰذا ایسی صورت میں مسئلہ کی درستگی کیلئے تصحیح کے عمل کی ضرورت پڑتی ہے،لہٰذا تصحیح کے قواعد کے ذریعہ مخرج اور اُس کے سہام کو بڑھایا جاتا ہے جس سے کسر ختم ہوجاتی ہےاور ورثاء پر حصص پورے پورے تقسیم ہوجاتے ہیں اِس عمل کو ”تصحیح“کہا جاتا ہے۔تصحیح کی اَقسام اور اُن کے قواعد: تصحیح کی دو قسمیں ہیں: (1)تصحیح قسمِ اوّل۔ (2)تصحیح قسمِ ثانی۔