عزیزم! عافاکم اﷲ ووفقنی وإیاکم لما یحب ویرضیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
صدمہ بڑا ہے، اسی لحاظ سے غم بھی بڑا ہے ، اسی اعتبار سے دل کا زخم بھی بڑا ہے ، اسی لئے اس کے اندمال میں دیر لگ رہی ہے ۔ یہ ایک طبعی اور فطری غم ہے ، ایمان بالغیب اس رنج وغم کو ہلکا کرتا ہے ، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ غم کی یہ آگ آدمی کے جسم وجان کو گھلادے، اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کی طبائع مختلف بنائی ہیں ، بعض لوگوں پر صدمات کا اثر کم پڑتا ہے، وہ چندے متاثر ہوتے ہیں اور پھر اثر ختم ہوجاتا ہے، بعض طبیعتیں لطیف ہوتی ہیں ان پر اثر زیادہ ہوتا ہے ، اور دیر تک قائم رہتا ہے ۔ تاہم کچھ بھی ہو ، دنیا کی ہر چیز فنا ہوجانے والی ہے ، جلد یا بدیر، صدمہ بھی فنا ہوجاتا ہے ، اس میں اگر انسان کے ارادہ اورعمل کا دخل ہوتا ہے تو صدمہ جاتے جاتے بہت کچھ اجر وثواب بھی ڈالتا جاتا ہے ، صدمہ کے فنا کرنے کا یہی ارادۂ وعمل شریعت کی اصطلاح میں صبر ہے ، جس کی محبوبیت اور مقبولیت قرآن وحدیث میں اس کثرت سے بیان کی گئی ہے کہ شاید اتنی محبوبیت ومقبولیت ایمان کے علاوہ کسی اور عمل صالح کی نہیں بیان کی گئی ہے۔
یہ بالکل سچ ہے کہ دل نہیں بہلتا ، کسی کام میں جی نہیں لگتا ، ایک بے کیفی سی بے کیفی ہے ، ایک بے لطفی سی بے لطفی ہے ، رفاقت کا چراغ ایسا یک بیک گل ہوا کہ آدمی متحیر اور ششدر کھڑا رہ جائے ، وہم وگمان سے پہلے ہی ایک ایسی بات ہوگئی جس کی کوئی تلافی ممکن نہیں رہی، مادی روشنی اچانک گل ہوتی ہے ،تو دیر تک آدمی ہوش وحواس سے بے گانہ رہتا ہے، یہی کیفیت یہاں بھی ہے ، پس اگر بے دلی اور بے کیفی ابھی تک باقی ہے ، تو کچھ محل تعجب نہیں ہے۔