عزیزم حافظ نسیم الحق سلّمہ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
پرسوں تمہارا خط ملا ، تم نے عرب جانے کی بات لکھی ہے ، اس سے مجھے خوشی ہونی چاہئے ، لیکن میرا دل رنج وغم میں ڈوب گیا ، ایک بمبئی ہی میں تمہارا رہنا مجھے کَھلتا تھا ، اب اس سے بڑے سمندر میں کود رہے ہو ، بات یہ ہے کہ جن لوگوں کی وجہ سے دین کو کچھ قوت اور دینداری میں کچھ اضافہ ہوسکتا ہے ، وہ جب اپنی اپنی صلاحیتوں سے آنکھیں بند کرکے محض دولت اور کسبِ مال کے ساتھ گردش کرنے لگتے ہیں تو میں اپنے رنج پر قابو نہیں پاسکتا ، کیا تم اسی لئے رہ گئے ہو کہ صرف اپنے نفس کے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے روپیہ ڈھالنے کی مشین بن جاؤ۔
میں سچ کہتا ہوں کہ عرب بہت مقدس مقام ہے اگر آدمی اپنے دین وایمان کی حفاظت اوراس میں ترقی کی نیت سے جائے!لیکن اس جانے کا طور دوسرا ہوگا ، اور بڑی بد نصیبی کی بات ہے ان دینداروں کیلئے جنھیں محض دولت کی ہوس لئے لئے پھرے ۔ ؎
سب کو دنیا کی ہوس خوار لئے پھرتی ہے
کون پھرتا ہے یہ مردار لئے پھرتی ہے
حق تعالیٰ تمہارے دین وایمان کی حفاظت فرمائے ، میرے لئے بھی یہی دعا کرو ، اس دور میں مال ودولت کی فراوانی کے ساتھ دینداری کا اجتماع بہت مشکل ہوتا ہے ، کاش زادِ آخرت کی بھی اتنی فکر ہوتی ، جس قدر اہل وعیال کی پرورش کی ہوتی ہے ، میں کسب ( کمانے ) کو ہرگز منع نہیں کرتا ، مگر زندگی کا محور ومرکز کسب مال ہی بن جائے یہ بھی ہرگز گوارا نہیں ، بس یہ بات ہے ، مگر مجذوب کی بڑ کون سنے گا ؟ میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں ، جہاں کہیں بھی جاؤ ، تم سے بھی یہی درخواست ہے ۔والسلام
اعجاز احمد اعظمی / ۲۰؍ صفر ۱۴۰۵ھ
٭٭٭٭٭