معاشرتی آداب و اخلاق ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں |
وسٹ بکس |
|
محسوس ہوگی،اورہم صاحبِ اولادہوتے ہوئے بھی خدانخواستہ خودکوبے اولادسمجھنے پرمجبور ہوں گے…!! اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ :(مُرُواْ أَوَْلَادَکُمْ بِاْلْصَّلَاۃِ لِسَبْعٍ) (۱) ترجمہ:(اپنی اولادکوسات سال کی عمرسے ہی نمازکاحکم دو) یعنی اولادکوبچپن میں ہی نمازکاعادی بنادیاجائے ، اوراسی پرقیاس کرتے ہوئے ہم انہیں ہمیشہ کیلئے جس روپ میںدیکھنے کی خواہش رکھتے ہوں انہیں ان کے بچپن اورکم عمری میں ہی اس روپ میں ڈھال دیاجائے ، کیونکہ بعدمیں یہ ممکن نہیں ہوگا۔(۳) اولاد کے انجام کی فکر : انسان ہمیشہ اپنی اولاد کی دنیاوی ترقی وکامیابی اوراس کے بہترمستقبل کیلئے فکرمنداورکوشاں رہتاہے ، یقینایہ ایک طبعی امرہے اوراگریہ کوشش اورجدوجہد شرعی اصول وضوابط کے مطابق ہوتواس میں شرعاً کوئی قباحت بھی نہیں ہے،بلکہ یہ توخودشریعت اسلامیہ کی طرف سے ہی والدین کے ذمے ان کی اولاد کیلئے مقرر کردہ حقوق میں شامل ہے۔البتہ یہاں یہ بات ضرورذہن میں رہنی چاہئے کہ دنیاکی زندگی عارضی وفانی ہے ، جبکہ آخرت کی زندگی ابدی ہے ، لہٰذاظاہرہے کہ آخرت کی کامیابی وراحت کی فکرزیادہ ہونی چاہئے اوراس مقصد کیلئے کوشش اورجدوجہد بھی زیادہ ہونی چاہئے ، بہت سے لوگوں کواکثروبیشتر یہ کہتے ہوئے سناجاتاہے کہ ہمیں اس بات کی انتہائی فکرہے کہ ہمارے مرنے کے بعدبچوں کاکیابنے گا؟ لیکن یہ بھی توسوچناچاہئے کہ خودبچوں کے مرنے کے بعدان (بچوں) کا کیا بنے گا۔۔۔۔؟ کیونکہ ہمارے بچے بھی توآخرانسان ہی ہیں اورہرانسان کی طرح یقیناان کی آخری منزل ------------------------------ (۱)احمد[۶۷۵۶]