معاشرتی آداب و اخلاق ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں |
وسٹ بکس |
|
(۴) خلافِ مزاج باتوں پرصبروتحمل : یہ حقیقت ہمیشہ ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ اتنی بڑی انسانی آبادی میں محض کوئی دوانسان بھی ایسے نہیں ہوسکتے کہ ہرمعاملے میں جن کانظریہ بالکل ایک ہی جیساہواوران میں مکمل اتفاقِ رائے ہو۔خواہ وہ باپ بیٹاہوں ،حقیقی بھائی ہوں،میاں بیوی ہوں ،یاجوکوئی بھی ہوں۔نہ ہی اس دنیامیں کوئی ایساانسان ملے گاکہ پیدائش سے موت تک زندگی کے ہرقدم پراورہر معاملے میں اس کے تمام امورعین اس کی اپنی مرضی وخواہش کے مطابق طے پاتے ہوں، خواہ وہ کوئی بادشاہ ہویافقیر،امیرہویاغریب۔(۱) چنانچہ زندگی کے اس سفرمیں ہرانسان کوقدم قدم پربہت سی خلافِ مزاج باتوں کا سامناکرناپڑتاہے،لہٰذایہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینے اورذہن نشیں کرلینے کی اشد ضرورت ہے کہ ہمیشہ صبروتحمل ٗوسعتِ صدر ٗرواداری ٗحلم وبردباری ٗدوسروں کی رائے کا ------------------------------ (۱)اس موقع پرعبرت کی غرض سے ایک مختصرسے واقعے کاتذکرہ مناسب رہیگا۔ایک بار عیدکے موقع پرمیں نے ایک شخص کونمازِظہرکے بعدمسجدمیں کافی اداس وپریشان دیکھا۔چونکہ اس سے میراکچھ تعارف تھااس لئے رسمی دعاء وسلام کے بعدمیں نے اس کی اس اداسی کی وجہ دریافت کی۔جواب میں وہ شخص یوں گویاہواکہ پاکستان میں گاؤں میں میرابیٹاہے جوکہ بہت ہی شریف اورفرمانبرداربھی ہے۔گذشتہ چندسالوں سے مسلسل ایسااتفاق ہورہا ہے کہ وہ ہرسال عیدکے موقع پرمجھ سے یہ فرمائش کرتاہے کہ میں اس کیلئے کچھ رقم ارسال کروں ٗتاکہ وہ موٹرسائیکل خریدسکے۔میں اس کی یہ فرمائش ٹال نہیں سکتااس لئے ہرسال یہ وعدہ کرتاہوں کہ اس سال چونکہ مالی حالات درست نہیںہیں ٗ لہٰذاآئندہ سال عیدکے موقع پرضروررقم ارسال کردوں گا۔مگرافسوس کہ ہرسال کی طرح اس سال بھی میں اس کی یہ خواہش پوری نہ کرسکا… حالانکہ وہ میراانتہائی فرمانبرداربھی ہے…!! دوسرے ہی روزاتفاقاً ایک دعوت میں ایک صاحب کواپنے بیٹے کے بارے میں نہایت ہی افسردگی اورحسرت ویاس کی کیفیت میں اس طرح شکوہ کرتے ہوئے سنا:’’میں نے عیدسے ایک روزقبل اپنے بیٹے کوبالکل نئی گاڑی بطورِہدیہ بھجوائی ،مگرظالم کواتنی توفیق بھی نہ ہوئی کہ عیدکے روزمجھے ٹیلی فون پرہی ’’عیدمبارک‘‘کہدیتا…!! !