معاشرتی آداب و اخلاق ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں |
وسٹ بکس |
|
ودیگرشرعی احکام ومسائل اوردینی فرائض وواجبات کے معاملے میں’’غلو‘‘اوربے جاسختی ناپسندیدہ ہے ٗ بعینہٖ اسی طرح اس بارے میں تساہل وغفلت اورتقصیروکوتاہی بھی یقینااورقطعاً ناقابلِ قبول ہے،ایساہرگزنہوکہ انسان محض بیٹھے بٹھائے ہی آخرت میںراحت وکامیابی ٗ جہنم سے نجات اورجنت کی لازوال وبے مثال اوردائمی وابدی نعمتوں کی تمناکرتارہے… جیساکہ کسی شاعرکاقول ہے: تَرجُو النّجَاۃَ ولَم تَسلُک مَسالِکَھا اِنّ السّفِینۃَ لا تَجرِي عَلیٰ الیَبَسٖ یعنی:’’تم آخرت میں نجات کی امیدتولگائے بیٹھے ہو… مگرنجات کے راستے پرتوتم چلتے ہی نہیں…؟ کیاکبھی کوئی کشتی خشکی پربھی تیرسکتی ہے…؟‘‘ مقصدیہ کہ اگردریاکے اُس پارجانے کی خواہش وتمناہے توپہلے کشتی کوخشکی سے اٹھاکرپانی میں ڈالاجائے اوراس کے بعدیہ امیدکی جائے کہ یہ کشتی اب ہمیں اُس پارپہنچادے گی۔ لہٰذا آخرت میں نجات اوروہاں کی راحت وکامیابی کی اگرحقیقی طلب ہوتواس مقصدکیلئے عملی کوشش اورحقیقی جدوجہدضروری ہے۔البتہ اسلام کی تعلیمِ اعتدال کے تقاضے بھی ملحوظ رہیں۔(۳) معاشرت میں اعتدال : عزیزواحباب ودیگرمتعلقین کے ساتھ میل جول اورملاقات وغیرہ کے معاملے میں بھی یہ بات ملحوظ رہے کہ نہ توایسی غفلت وکوتاہی کامظاہرہ کیاجائے کہ غلط فہمیاںاوردلوں میں فاصلے پیداہونے لگیں،اورنہ ہی باہمی تعلق اورآمدورفت اس قدربڑھ جائے کہ انسان بالکل ہی بے وقعت ہوکررہ جائے…!!