مخمور اور اس سے اپنے دلوں کو معمور رکھیں۔
مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی لکھتے ہیں:
’’یہ محبت جب قلب میں اس درجہ پیوست ہوجاتی ہے کہ محبوب کاخیال ہمہ وقت قائم رہنے لگے اور کسی وقت بھی دل سے نہ ہٹے تو اس کانام نسبت یا دداشت ہے اور ایسی حالت ہوجاتی ہے جیسے دن میں انسان سب کچھ کرتا اور اس کا یقین رکھتا ہے کہ سورج نکلا ہوا ہے اور جوکچھ کررہاہوں اسی کی روشنی میں کررہاہوں اسی کانام یقین اورحضور ہے۔‘‘
آپ اپنے متعلقین کے دلوں میں عشق ومحبت کی یہ آگ لگاکر اور ان کے دلوں کو سراپا درد وسوز بناکر نسبت یادداشت اور کمال یقین وحضور کی کیفیت پیدا کرنا چاہتے تھے آپ کے متعلق آپ کے سیرت نگار لکھتے ہیں:
’’آپ کی ساری تعلیم کاخلاصہ صرف یہی تھا اور جس طرح آپ نے اس حال پر اپنی عمر شریف کے ایام ولمحات گزارے آپ چاہتے تھے کہ آپ کے منتسبین بھی اسی کے عاشق بن کر اپنی زندگیاں ختم کردیں اور اس کے سوا کسی دوسرے رنگ کا مزہ بھی نہ چکھیں حضرت امام ربانی مولانا گنگوہی قدس سرہ نے آپ کی نسبت کے متعلق جو ارشاد فرمایا وہ اس کی شہادت ہے فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ شانہ نے میرے قرۃ العین سعید ازلی خلیل احمدکو نسبت صحابہ سے نوازا ہے اور یہ کہ تمہاری نسبت کومیری نسبت سے زیادہ قرب ومناسبت ہے۔‘‘(تذکرۃ الخلیل)
سنت نبوی اورحدیث پاک:
سنت نبوی اور حدیث پاک سے آپ کا جو تعلق تھا اور جو شغف اور زندگی بھر جو انہماک رہا وہ آپ کی کتاب زندگی کا روشن باب تھا اس معاملے میں بڑا حساس دل رکھتے تھے سنت نبوی کے خلاف کسی عمل وقول کو آپ برداشت نہیں کرسکتے تھے آپ نے اپنی پوری زندگی حدیث کی خدمت میں صرف کردی تھی۔ جب آپ کے قویٰ مضمحل ہوگئے اور حدیث کی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے صحت نے جواب دے دیا تو بعض حاضر باشوں نے عرض کیا کہ حضرت کچھ آرام فرمالیں اور اپنی صحت کا بھی خیال رکھیں تو آپ کی زبان مبارک سے نکلا:
جان دے دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
آپ نے اپنی زندگی کے چالیس بیالیس سال حدیث کے درس میں صرف کئے۔ دس سال ابوداؤد کی شرح ’’بذل المجہود‘‘ میں لگائے اور اسی ذوق وشوق میں اپنی عمر ختم کردی اور جب یہ مبارک کام پورا ہوا اور بذل المجہود کی تکمیل ہوگئی تو آپ نے علماء مدینہ اور اپنے احباب، خدام کی دعوت فرمائی کہ آپ کا رواں رواں اس مبارک کام کی تکمیل پر خدائے تعالیٰ کا شکر وامتنان میں چور تھا اس وقت کی خوشی کاکیا ٹھکانہ تھا اس کی کیفیت کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں جو اس وقت موجود تھے آپ نے اس خوشی میں فرمایا:
’’اس قابل تو ہوں نہیں مگر ہوس تھی اور ہے کہ خدام حدیث کی جماعت میں شامل ہوجاؤں اللہ کا انعام ہے کہ اس نے کام لیا۔