قوت نسبت:
آپ کو اللہ نے بڑی قوت نسبت عطا فرمائی تھی، آپ بسا اوقات اپنی قوت قلبیہ سے کام لیتے اور آپ کی اس قوت نسبت کا اثر دوسروں پر پڑتا اس سلسلہ کے دوچار واقعات نمونہ کے طور پر پیش خدمت ہیں اس سے اندازہ ہوگا کہ آپ کے علم وفضل کے ساتھ ساتھ قوت باطنی اور تصرف کا کیا درجہ تھا آپ کی بسا اوقات توجہ سے سخت سے سخت دل کی کایا پلٹ ہوجاتی تھی۔
وساوس اور خطرات کی اصلاح ہوتی تھی آپ کی نظر کیمیا اثر بعض دفعہ وہ اثر دکھلاتی تھی کہ مخالف سے مخالف شخص بھی آپ کا قائل اور گرویدہ ہوجاتاتھا ا س سلسلے میں سہارنپور کا وہ مشہور مناظرہ جو مسلمانوں اور آریوں کے درمیان ہوا تھا آپ کی توجہ اور قوت قلبی کی وجہ سے مسلمانوں کے حق میں پلٹ گیا تھا، یہ مناظرہ خاص سہارنپور میں ہوا حضرت مولانا بنفس نفیس اس میں شریک ہوئے اس مناظرہ میں مسلمانوں کی طرف سے دونوںفریقوں کی تقریروں کو قلمبند کرنے کے لئے مولانا کفایت اللہ صاحب اور مولانا احمداللہ صاحب مقرر ہوئے مولانا کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں:
’’مجلس مناظرہ میں آریوں کی طرف سے ایک جوان خوبصورت گردے کپڑے پہنے ہوئے سادھو تھا جو آرام کرسی پر لیٹا رہتا اور جب مسلمانوں کے مقرر تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوتے تو وہ گردن جھکا کر بیٹھ جاتاتھا، مقررین اسلام کی تقریریں نہایت پراگندہ اور خراب ہورہی تھیں حتی کہ مولانا عبدالحق حقانی سے دور وتسلسل کی تقریر بھی نہ ہوسکتی تو میں نے صدر جلسہ مرزا عزیز بیگ کو ایک پرچہ پر لکھ کر دیا کہ مسلمانوں کی طرف سے جب مناظرتقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوتاہے تو یہ جوگی اثر ڈالتا ہے لہٰذا مولانا خلیل احمد صاحب کو اس کی اطلاع دیدو صدر جلسہ نے یہ پرچہ پڑھ کر حضرت کی طرف سرکادیا اور حضرت نے پرچہ پڑھتے ہی گردن جھکالی کہ دونوں حق وباطل میں تصرف قلب کی جنگ ہونے لگی دومنٹ بھی نہ گزرے تھے کہ وہ سادھو بے قرار ہوکر آرام کرسی سے اٹھا اور میدان جلسہ سے باہر چلا گیا پھر کیا تھا مسلمانوں کی وہ تقریریں ہوئیں کہ گویا دریا کا بند کھل گیا، اور حالانکہ اس مناظرہ میں بہت کچھ بے عنوانیاں ہوئی تھیں مگر نتیجہ یہ نکلا کہ گیارہ آدمی مشرف بااسلام ہوئے اسی دن دوپہر کا کھانا کھانے میں حضرت نے فرمایا اس کا تو مجھے یقین تھا اور ہے کہ اسلام غالب رہے گا الحق یعلو ولا یعلی مگر حق تعالیٰ کی شان بے نیاز ہے اس کا خوف ہر وقت اور ہر بشر کو ہے۔(تذکرۃ الخلیل:۴۳۸)
حضرت مولانا کی قوت قلبی اور باطنی تصرف، توجہ کی کیمیا اثری کا ایک واقعہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہ العالی بیان فرماتے ہیں بلکہ اپنا مشاہدہ تحریر کرتے ہیں:
’’حضرت قدس سرہ ایک ضرورت سے مظفر نگر کسی صاحب سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے یہ ناکارہ بھی ساتھ تھا مگر ان کے مکان پر پہنچے تو صاحب مکان وہاں موجود نہیں تھے گھر میں گئے ہوئے تھے اور ایک پیر صاحب ایک آرام کرسی پر نہایت جبہ قبہ پہنے ہوئے آرام سے لیٹے ہوئے تھے حضرت تشریف لے گئے ، اور بہت دور ایک معمولی سی کرسی پر بیٹھ گئے چند ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ وہ پیرصاحب نہایت گھبراکر یوں کہتے ہوئے اٹھے بڑا گرم ہے بڑا گرم ہے یہ لفظ تو میں نے بھی کئی دفعہ زور سے سنے تھوڑی دیر بعد وہ