سب کے لئے سرمایہ امتیاز ہے، ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:
’’عزیزی جناب مولوی رشید احمد صاحب کے وجود بابرکت کو ہندوستان میں غنیمت کبریٰ، نعمت عظمیٰ سمجھ کر ان سے فیوض وبرکات حاصل کریں کہ مولوی صاحب موصوف جامع کمالات ظاہری اور باطنی کے ہیں اور ان کی تحقیقات محض للہیت کی راہ سے ہیں ہر گز اس میں شائبہ نفسانیت نہیں۔‘‘
(کلیات امدادیہ فیصلہ ہفت مسئلہ ص ۸۳)
دوسری جگہ حسب ذیل بلند کلمات تحریر فرمائے:
’’ونیز ہرکس کہ ازیں فقیر محبت وعقیدت وارادت دارد ومولوی رشید احمد صاحب وسلمہ ومولوی محمد قاسم صاحب سلمہ راکہ جامع جمیع کمالات علوم ظاہری وباطنی اند بجائے من فقیر رقم اوراق بلکہ بمدارج فوق از من شمارند اگرچہ بظاہر معاملہ برعکس شد کہ اوشاں بجائے من ومن بمقام او شاں شدم صحبت او شاں را غنیمت دانند کہ ہم چنیں کساں دریں زماں نایاب اندواز خدمت بابرکت ایشیاں فیض یاب بودہ باشند وطریق سلوک کہ دریں رسالہ نوشتہ شد در نظر شاں تحصیل نمائندہ انشاء اللہ تعالیٰ بے بہرہ ناخواہند ماند اللہ تعالیٰ در عمرشاں برکت دہا دواز تمامی نعمائے عرفانی وکمالات قربیت خود مشرف گرداناد وبمراتبات عالیات رسانا دو از نورہدایت ایشاں عالم را منور گرداندوتاقیامت فیض او شاں جاری داراد وبحرمت النبی وآلہ امجاد۔(حاشیہ براہین قاطعیہ ۲۷۲)
تیسری جگہ تحریر فرماتے ہیں:
’’فقیر آپ کی محبت کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہے اور الحمدللہ، اللہ تعالیٰ نے آپ کی محبت کو میرے دل میں ایسا مستحکم کردیا ہے کہ کوئی شے اس کو ہلانہیں سکتی۔‘‘
(مکاتیب رشیدیہ)
ان الفاظ کے بعد اور زیادہ زور دار الفاظ میں آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں:
’’کسی کو مقدور نہیں کہ فقیر کے سامنے آپ کے خلاف زبان ہلاوے کیونکہ اس بارے میں اس کو سوائے میرے ملال ورنج کے کیا فائدہ ہوگا دوسرے جو کوئی فقیر کو دوست رکھتا ہے وہ ضرور آپ سے محبت رکھتاہے۔ تو اس کے خلاف کبھی کوئی تحریر آپ کے پاس جائے تو اس کو باور نہ کرنا۔‘‘ (مکاتیب رشیدیہ)
کتاب وسنت سے تعلق اور ان کا بنیادی کردار:
حضرت مولانا کو احساسات وخیالات کی جوتابندگی اور زندگی ملی گئی وہ کتاب وسنت سے تعلق ،ان پر مداومت اور مواظبت ،ان سے محبت اور عشق کا نتیجہ تھی آپ نے قرآن کریم کی تلاوت کو معمول بنایاتھا خود آپ کو اس کتاب حکیم سے جو تعلق تھا اور اس کی عظمت ومحبت کا جو بیج آپ کے دل میں بویا گیا تھا اس کی تفصیل گزشتہ اوراق میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ سخت سے سخت حالات اورپریشانیوں میں بھی اس سے بے اعتنائی نہیں برتی اور اس کی تلاوت اس پر غوروفکر کامعمول حرزجاں بنائے رہے آپ اس کو نہ